پاکستان کے عمومی ترقیاتی اہداف میں رکاوٹ ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہماری قومی زندگی میں برسوں سے محسوس کیا جا رہا ہے: ہمارا بیوروکریٹک ڈھانچہ فرسودہ، جامد اور غیر مؤثر ہے۔ انتظامی اور معاشی ترقی محض بیان بازی کا شکار ہے، جب حقیقت زندگی میں مسلسل رکاوٹ کا سبب ہے۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ نے ایک ایسی حقیقت کو پھر سامنے رکھ دیا ہے جو ہم سب برسوں سے بھگت رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کا بیوروکریسی پر مبنی نظام پرانا، فرسودہ اور غیر مؤثر ہو چکا ہے۔ اس نظام کی موجودگی میں انتظامی اور معاشی ترقی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں بیوروکریسی وہی ہے جو انگریز دور میں عوام پر حکمرانی کے لیے بنائی گئی تھی۔ مقصد عوامی خدمت نہیں بلکہ حکمرانوں کے احکام بجا لانا تھا۔ افسوس کہ آزادی کے 77 برس بعد بھی صورت حال نہیں بدلی۔ آج بھی افسر شاہی خود کو عوام سے بالاتر سمجھتی ہے۔
پولیس، ریونیو اور بلدیاتی ادارے اس فرسودہ نظام کی زندہ مثالیں ہیں۔ پولیس کا کام عوام کو تحفظ دینا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تھانے عوام کے لیے خوف کی علامت ہیں۔ ایف آئی آر کے اندراج سے انصاف کی فراہمی تک عام آدمی کو سفارش یا رشوت کے بغیر کچھ نہیں ملتا۔ زمین کا ریکارڈ آج بھی پرانے رجسٹروں اور پٹواریوں کے رحم و کرم پر ہے۔ ایک شخص کو اپنی ہی زمین کا انتقال کروانے کے لیے سالوں کی بھاگ دوڑ اور جیب خالی کرنا پڑتی ہے۔ دنیا ای-لینڈ ریکارڈ پر جا چکی ہے مگر ہم آج بھی صدیوں پرانے نظام میں پھنسا ہوا ہیں۔ اسی طرح بلدیاتی ادارے صفائی، پینے کے صاف پانی اور سیوریج جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کی بجائے صرف کرسیوں کی سیاست کا شکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے نظام کے ساتھ ترقی کیسے ممکن ہے؟ جب سرمایہ کار کو ایک فیکٹری لگانے کے لیے درجنوں محکموں کے چکر کاٹنے پڑیں، جب کسان اپنی ہی زمین کا کاغذ نہ نکلوا سکے اور جب عام شہری پولیس کے پاس جانے سے ڈرے تو معیشت کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ بینک نے صاف کہا ہے کہ موجودہ بیوروکریسی کے ساتھ ترقی کے امکانات تقریباً ناممکن ہیں۔اب محض بیانات یا چھوٹے موٹے اقدامات سے بات نہیں بنے گی۔ ملک کو سخت اور بنیادی اصلاحات درکار ہیں۔ تمام محکمے فوری طور پر ڈیجیٹلائز کیے جائیں تاکہ عوام کے مسائل تیزی سے حل ہوں۔
بھرتیاں اور ترقی صرف میرٹ پر ہوں، سفارش پر نہیں۔ بیوروکریسی کے لیے کارکردگی پر مبنی احتسابی نظام بنایا جائے اور جو افسر عوامی خدمت میں ناکام رہے، اسے برطرف کیا جائے۔ پولیس، ریونیو اور بلدیاتی اداروں کو عوامی خدمت کے اصولوں پر نئے سرے سے ڈھالا جائے تاکہ یہ ادارے عوام کے مسائل حل کرنے میں کردار ادا کریں نہ کہ مشکلات بڑھانے میں۔پاکستان کے مستقبل کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم بیوروکریسی کے اس فرسودہ ڈھانچے کو کتنا جلد بدلتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ ایک انتباہ ہے۔ اگر اب بھی ہم نے اصلاحات نہ کیں تو آنے والی نسلیں بھی انھی مسائل کی دلدل میں پھنسی رہیں گی۔
تبصرہ لکھیے