ہوم << مائیں اپنے بچوں کی جان کیوں لے رہی ہیں؟ - شبانہ ایاز

مائیں اپنے بچوں کی جان کیوں لے رہی ہیں؟ - شبانہ ایاز

ماں کا لفظ سنتے ہی ذہن میں محبت، شفقت اور قربانی کی تصویر ابھرتی ہے۔ قدرت نے عورت کو یہ مقدس رتبہ عطا کیا ہے کہ وہ اولاد کی پرورش کرے، ان کی حفاظت کرے اور انہیں زندگی کی راہوں پر چلائے۔ اسلام میں ماں کو جنت کے دروازے کی کنجی کہا گیا ہے، جہاں پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ:
"جنت ماں کے قدموں تلے ہے"۔

مگر افسوس کہ آج کے دور میں ایسے لرزہ خیز واقعات سامنے آ رہے ہیں جہاں مائیں اپنی ہی اولاد کی جان لے رہی ہیں۔ یہ نہ صرف ایک گھرانے کا المیہ ہے بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی اور نفسیاتی تباہی کی علامت ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں فیلسائیڈ (Filicide) یعنی والدین کی جانب سے بچوں کا قتل ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ وہ فعل ہے جو فطرت کے خلاف ہے، اور جب یہ ماں سے سرزد ہوتا ہے تو معاشرہ ہل کر رہ جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اور ان میں سے ایک بڑا حصہ والدین کے ہاتھوں موت کا شکار ہوتا ہے۔

ایک تحقیق کے مطابق، امریکہ میں 1976 سے 2004 تک پانچ سال سے کم عمر بچوں کے قتل میں 30 فیصد مائیں ملوث تھیں۔ پاکستان میں بھی ایسے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جو غربت، نفسیاتی مسائل اور اخلاقی انحطاط کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ہمارا مقصد صرف واقعات بیان کرنا نہیں بلکہ معاشرے کو بیدار کرنا ہے تاکہ ایسے المیوں کو روکا جا سکے۔ ماں کی ممتا کو قہر بننے سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

پاکستانی معاشرے میں دل دہلا دینے والے واقعات
پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں ایسے متعدد کیسز سامنے آئے ہیں جہاں ماؤں نے اپنے بچوں کو قتل کیا ہے۔ یہ واقعات نہ صرف دل کو دہلا دیتے ہیں بلکہ معاشرے کے اندر چھپے مسائل کو بھی عیاں کرتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق، پچھلے پانچ سالوں میں پاکستان میں 50 سے زائد ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جہاں مائیں یا ان کی ملی بھگت سے بچوں کا قتل ہوا۔ یہ اعداد و شمار صرف رپورٹ شدہ ہیں؛ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

کراچی کا واقعہ (2025)
کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی خیابان مجاہد میں 14 اگست 2025 کو ایک 37 سالہ خاتون عدیبہ نے اپنے دو بچوں، 7 سالہ بیٹے ضرار اور 4 سالہ بیٹی سمیعہ کو تیز دھار آلے سے گلے کاٹ کر قتل کر دیا۔ یہ واقعہ صبح کے وقت پیش آیا جب بچے اپنی ماں کے پاس رات گزارنے آئے تھے۔ عدیبہ نے بچوں کو باتھ روم میں لے جا کر حملہ کیا اور پھر لاشوں کی تصاویر اپنے سابق شوہر کو بھیجیں۔ پولیس نے جائے وقوعہ سے آلہ قتل برآمد کیا اور لاشوں کو جناح ہسپتال منتقل کیا جہاں پوسٹ مارٹم سے گلے پر گہرے زخموں کی تصدیق ہوئی۔

تفتیش سے پتا چلا کہ عدیبہ اور اس کے شوہر کی طلاق ستمبر 2024 میں ہوئی تھی، اور کسٹڈی باپ کو ملی تھی۔ عدیبہ شدید ڈپریشن اور نفسیاتی مسائل کی شکار تھی۔ اس کا بیان تھا کہ "بچے دیکھ کر دل خراب ہوا، وہ پیارے تھے مگر ان پر ظلم ہو رہا تھا"۔ وہ یہ سمجھتی تھی کہ موت اس کے بچوں کے لیے بہتر ہے۔یہ ایک الٹروسٹک فیلسائیڈ (altruistic filicide) کی مثال ہے جہاں ماں بچوں کو تکلیف سے نجات دلانے کے لیے قتل کرتی ہے۔ اس کیس نے پورے ملک کو جھنجھوڑ دیا اور نفسیاتی صحت کی اہمیت پر بحث چھیڑ دی۔

پنجاب کا کیس (2025)
جولائی 2025 میں سیالکوٹ کے علاقے ڈسکہ میں ایک ماں نے اپنے آشنا ملک فاروق کے ساتھ مل کر اپنے دو بچوں، 6 سالہ بیٹی ام کلثوم اور 3 سالہ بیٹے وارث کو اینٹوں سے سر پر وار کر کے قتل کر دیا۔ لاشیں قبرستان میں پھینک دی گئیں۔ تفتیش سے پتا چلا کہ ماں اور فاروق کے ناجائز تعلقات تھے، اور بیٹی نے انہیں دیکھ لیا تھا۔ افشاء کے خوف سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ یہ خودغرضانہ فیلسائیڈ کی مثال ہے جہاں ذاتی راز چھپانے کے لیے بچے مارے جاتے ہیں ۔ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا، اور یہ کیس سماجی اخلاقی بگاڑ کی عکاسی کرتا ہے۔

راولپنڈی کا کیس (2023 )
راولپنڈی میں 2023 میں ایک ماں نے غربت اور شوہر کے تشدد سے تنگ آ کر اپنے تین بچوں کو زہر دے دیا۔ دو بچے ہلاک ہو گئے جبکہ ایک کو بچا لیا گیا۔ بعد میں ماں نے خودکشی کی کوشش کی۔ یہ کیس غربت اور گھریلو تشدد کی وجہ سے ہونے والے فیلسائیڈ کی مثال ہے۔ ماں کا بیان تھا کہ "بچوں کو بھوک اور تکلیف سے بچانا چاہتی تھی"۔ ایسے کیسز میں نفسیاتی دباؤ انتہائی حد تک پہنچ جاتا ہے۔

لاہور کا کیس (2022)
لاہور میں ایک سوتیلی ماں نے شوہر سے انتقام لینے کے لیے بچوں کو قتل کر دیا۔ عدالت نے اسے عمر قید کی سزا سنائی۔یہ "spouse revenge" فیلسائیڈ کی قسم ہے جہاں ازدواجی تنازعات بچوں پر نکلتے ہیں۔ان کیسز سے واضح ہے کہ پاکستان میں فیلسائیڈ کی وجوہات متنوع ہیں، مگر سب میں نفسیاتی اور سماجی عوامل غالب ہیں۔ پولیس اور عدالتیں ایسے کیسز میں تیز تفتیش کر رہی ہیں، مگر روک تھام کی ضرورت ہے۔

عالمی منظرنامہ اور مثالیں
یہ المیہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں پایا جاتا ہے۔ ایک عالمی مطالعے کے مطابق، امریکہ میں ہر سال تقریباً 500 فیلسائیڈ کیسز ہوتے ہیں۔ عالمی سطح پر، ہر سال ہزاروں بچے والدین کے ہاتھوں قتل ہوتے ہیں، اور ان میں 40 فیصد کیسز میں مائیں ملوث ہوتی ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹس بچوں پر تشدد کی سنگینی بیان کرتی ہیں،

امریکہ: اینڈریا ییٹس کیس (2001)
ٹیکساس میں اینڈریا ییٹس نے شدید ڈپریشن اور وہم کی حالت میں اپنے پانچ بچوں کو باتھ ٹب میں ڈبو کر قتل کر دیا۔ وہ پوسٹ پارٹم سائیکوسس کی شکار تھی اور سمجھتی تھی کہ بچوں کو شیطان سے بچا رہی ہے۔ عدالت نے پہلے قتل کا فیصلہ دیا مگر بعد میں پاگل پن کی بنیاد پر بری کر دیا۔ یہ کیس نفسیاتی بیماریوں پر عالمی بحث کا سبب بنا۔

بھارت: اترپردیش کیس (2022-2024)
اترپردیش میں ایک ماں نے غربت اور جھگڑوں سے تنگ آ کر اپنے تین بچوں کو گلا دبا کر مار دیا۔ ایک تازہ کیس میں 2024 میں ایک خاتون نے اپنے تین بچوں کو دریا میں ڈبو کر قتل کیا اور عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی۔ بھارت میں غربت اور صنفی عدم مساوات ایسے کیسز کو بڑھاوا دیتے ہیں۔

افریقہ (کینیا): 2023 کیس
کینیا میں 2023 میں ایک ماں نے بھوک اور بیماری سے تنگ آ کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا۔ ایک اور کیس میں 2024 میں ایک خاتون نے دو بچوں کو مار کر خودکشی کی۔ افریقہ میں غربت اور صحت کی کمی ایسے واقعات کی بنیادی وجوہات ہیں۔ فن لینڈ میں ایک مطالعہ سے پتا چلا کہ مائیں اکثر فیلسائیڈ-سوئسائیڈ کرتی ہیں۔ برطانیہ میں بھی ایسے کیسز میں نفسیاتی مسائل غالب ہوتے ہیں۔ یہ عالمی مسئلہ ذہنی صحت اور سماجی مدد کی کمی کو اجاگر کرتا ہے۔

وجوہات کا تحقیقی جائزہ
ماؤں کے فیلسائیڈ کی وجوہات پیچیدہ ہیں، جو نفسیاتی، سماجی اور مذہبی عوامل سے جڑی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، پانچ اہم محرکات ہیں:
الٹروسٹک، شدید سائیکوسس، ناپسندیدہ بچہ، حادثاتی اور شوہر سے انتقام۔
اسلام سے دوری اور ایمانی کمزوری :
اسلام میں اولاد کو اللہ کی امانت کہا گیا ہے۔ قرآن مجید میں سورہ الاسراء آیت 31 میں فرمایا گیا: "اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو"۔ حدیث میں بھی جہالت کے دور کی لڑکیوں کے قتل کی مذمت کی گئی ہے۔ جب ایمان کمزور ہوتا ہے تو صبر اور خوف خدا ختم ہو جاتا ہے، اور گناہ آسان لگتا ہے۔ پاکستان میں سیکولر اثرات اور دینی تعلیم کی کمی یہ مسئلہ بڑھا رہی ہے۔

نفسیاتی بیماریاں
پاکستان میں خواتین میں ڈپریشن کی شرح بلند ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق، پوسٹ پارٹم ڈپریشن کی شرح 10-50 فیصد تک ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) کی رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ 25 فیصد خواتین شدید ڈپریشن کی شکار ہیں، اور پیدائش کے بعد 37 فیصد تک یہ دباؤ ماں کو غیر فطری فیصلوں پر مجبور کرتا ہے، جیسے اینڈریا ییٹس کیس میں۔

آزادی نسواں کی آڑ میں ناجائز تعلقات اور اخلاقی بگاڑ
پنجاب کیس کی طرح، ناجائز تعلقات افشاء کے خوف سے اکثر شوہر و بچوں کے قتل کا سبب بنتے ہیں۔ معاشرے میں اخلاقی اقدار کی کمی، میڈیا کے اثرات اور خاندانی نگرانی کی کمی یہ مسئلے بڑھا رہے ہیں۔

غربت اور گھریلو جھگڑے
پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، 2024 میں غربت کی شرح 40.5 فیصد ہے۔ غربت، بیروزگاری اور تشدد ماؤں کو مایوس کر دیتے ہیں، اور وہ بچوں کو "تکلیف سے نجات" دلانے کے لیے قتل کر دیتی ہیں۔ یہ وجوہات ایک دوسرے سے جڑی ہیں، اور ان کا حل جامع حکمت عملی میں ہے۔

قانونی پہلو
پاکستان میں بچوں کے قتل کو سنگین جرم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ (PPC) کی دفعہ 302 کے تحت قتل کی سزا موت یا عمر قید ہے، اور یہ قابل معافی نہیں چاہے ماں ہو یا باپ، کوئی رعایت نہیں۔ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ 2016 (جیسے بلوچستان چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ) بچوں پر تشدد، قتل یا اغوا کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیتا ہے۔ عدالتیں نفسیاتی مسائل کو دیکھتے ہوئے علاج کا حکم دے سکتی ہیں، مگر سزا سے استثنا کم ہے۔ یہ قوانین سخت تو ہیں، مگر نفاذ میں کمزوری ہے۔

آزادی نسواں کا پروپیگنڈہ اور خاندانی نظام کی تباہی
یہ سوال کہ "ماں اپنی ممتا کو کیوں بھول جاتی ہے؟" صرف انفرادی نفسیاتی یا وقتی مسئلے سے نہیں جڑا، بلکہ اس کے پیچھے ایک عالمی نظریاتی جنگ بھی کارفرما ہے۔ یہ جنگ مغربی تہذیب کے اس بیانیے نے چھیڑی ہے جسے "آزادی نسواں" کے نام پر پوری دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔مغربی معاشرے میں عورت کو خاندان اور بچوں کے رشتے سے الگ کر کے صرف فرد کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہاں عورت کی کامیابی کا پیمانہ یہ طے کیا گیا ہے کہ وہ کتنا کما سکتی ہے، کتنا خود مختار ہے، اور کس حد تک مردوں کے برابر کھڑی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کا ادارہ کمزور پڑ گیا، طلاق کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوا، سنگل پیرنٹ ہومز (single parent homes) عام ہو گئے اور لاکھوں بچے ماں یا باپ کی شفقت سے محروم ہو گئے۔

یہی نظریہ اب پاکستان جیسے معاشروں میں بھی پروپیگنڈے کے ذریعے داخل کیا جا رہا ہے۔ این جی اوز، میڈیا ،ڈرامے اور مغرب نواز تحریکیں عورت کو باور کرا رہی ہیں کہ شادی اور ماں بننا اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کے مطابق عورت کو گھر اور خاندان کی بجائے آزادی اور اکیلے رہنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان عورت، بچوں اور خاندانی ڈھانچے کو ہوا ہے۔

اسلام نے عورت کو اصل آزادی دی جو کہ اس کی فطرت کے مطابق ہے۔ قرآن پاک میں اولاد کو اللہ کی امانت قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عورت کے مقام کو ماں کی صورت میں سب سے زیادہ بلند کیا۔ مگر جب عورت اپنی اصل شناخت سے محروم ہو جاتی ہے تو خاندان ٹوٹنے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی نسواں کے نام پر آنے والی یہ تحریک دراصل عورت کو عزت دینے کے بجائے اس کی فطرت اور ذمہ داری سے دور کر رہی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں اس پروپیگنڈے کے نتیجے میں کئی سنگین اثرات ظاہر ہوئے ہیں:

1. طلاق کی شرح میں اضافہ – لاہور ہائی کورٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں صرف لاہور میں 20 ہزار سے زائد طلاق کے کیسز درج ہوئے۔
2. بچوں کی نفسیاتی محرومی – سنگل پیرنٹ ہومز میں پلنے والے بچے عدم تحفظ اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔
3. ماں کے کردار میں کمزوری – جب عورت کو باور کرایا جاتا ہے کہ ماں بننا اس کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے تو وہ اولاد کو بوجھ سمجھنے لگتی ہے۔
4. خاندانی اقدار کا انہدام – خاندان جو معاشرے کی بنیاد ہے، وہ کمزور ہو کر بکھر رہا ہے۔

یہی بگڑتی صورت حال فیلسائیڈ جیسے المناک واقعات کو بڑھا رہی ہے۔ جب عورت پر یہ بیانیہ حاوی ہو جاتا ہے کہ "میری ذاتی آزادی سب سے بڑی ہے" تو وہ کبھی غربت، کبھی ناجائز تعلقات اور کبھی نفسیاتی دباؤ کے تحت اپنی ممتا کو بھلا دیتی ہے۔

اسلامی خاندانی نظام ہی حل ہے
آزادی نسواں کے پروپیگنڈے کا توڑ صرف اسلام کے مضبوط خاندانی نظام میں ہے۔ اسلام عورت کو تعلیم اور کام کی اجازت دیتا ہے مگر اس کی اصل ذمہ داری اور عزت خاندان اور بچوں سے جڑی ہے۔ عورت اگر اپنی اصل پہچان کو سمجھ لے تو معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے خاندانی اقدار کے تحفظ پر زور دیں، نہ کہ مغرب کے ایجنڈے کو پروان چڑھائیں۔ عورت کو بتایا جائے کہ اس کی اصل طاقت ماں بننے میں ہے، اور یہی کردار ہے جو نسلوں کو سنوارتا ہے۔ماں اپنی اولاد کو مارنے پر مجبور کیوں ہوتی ہے؟

اس کا جواب یہی ہے کہ ایمان کی کمزوری، نفسیاتی بیماریاں، ناجائز تعلقات، غربت، سماجی بگاڑ اور آزادی نسواں کے پروپیگنڈے کا دباؤ۔ اسلام سے دوری ان سب پر حاوی ہے، کیونکہ ایمان ہی صبر اور ممتا کو زندہ رکھتا ہے۔ یہ واقعات ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اگر اقدار اور نظام پر نظرثانی نہ کی گئی تو معصوم بچوں کا خون بہتا رہے گا۔ معاشرے، حکومت اور افراد کو مل کر کام کرنا ہو گا تاکہ مائیں پھر سے "رحمت" بنیں، نہ کہ قہر۔