سوات اور بونیر میں سیلاب نے قیامت برپا کی دی ہے، گاؤں کے گاؤں صحفہ ہستی سے مٹ گئے ہیں ۔ خاندان کے خاندان ختم ہو گئے ہیں۔ اب وہ میاں چنوں اور فیصل آباد کا بزنس مین عالم دین کیا توجیہہ پیش کرے گا؟ جو کہ ہر قدرتی آفت کو ہمارے عمال کا نتیجہ قرار دے دیتا ہے؟
میرا ہر سال یا دو سال بعد سوات کا چکر لگتا ہے، میں نے کھبی بھی لوکل خواتین کو بنا پردہ/ عبایا کے بازار میں نہیں دیکھا، یہاں سب سے زیادہ دینی تعلیم کے مدارس بھی ہیں،اب مولانا صاحب ایسے ہمارے اعمال کے نتیجے میں عذاب قراد دیں گے؟ یہ سیلاب ہمارے اعمال کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسان کی قدرت سے چھیڑ خانی کا نتیجہ ہیں،یہ انسانی ہوس، لالچ کا نتیجہ ہیں ۔ دریائے سوات کے کنارے اتنی تجاوزات کھڑی کر دی گئی ہیں کہ دریا کے قدرتی بہاؤ کو چھوٹا کر دیا ہے،اب جب معمول سے تھوڑی زیادہ بارش ہوتی ہے، تو دریا تو اپنا راستہ خود بنا لیتا ہے اور پھر ساری تجاوزات ملیا میٹ ہو کر ہمارے سامنے گرتی ہیں اور پھر ہم روتے ہیں۔
کل کی ویڈیوز دیکھ لیں،پانی کے تیز بہاؤ میں لکڑیاں ہی لکڑیاں نظر آ رہی ہیں ۔ ٹمبر مافیا نے سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور محکمہ جنگلات کی ملی بھگت سے جنگلات کے جنگلات کاٹ دئیے ہیں،یہاں سے قیمتی ترین لکڑی کاٹ کر انہیں بیچا جا رہا ہے اور اسمگل کیا جا رہا ہے،جہاں سے یہ درخت کاٹے گئے ،وہاں سیاحت کےفروغ کے نام پر ہوٹلز بنا دئیے گئے ہیں،تو اب سیلاب ہی آنے ہیں، یہی لکڑی اب اپنا بدلہ لے رہے ہیں ۔ اسی طرح مخصوص بزنس مینوں کو نوازنے کے لیے، پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر،پتھر سیمنٹ فیکٹریوں کو دیئے جا رہے ہیں،جب پہاڑوں کی جڑوں کو انسان کاٹے گا تو پھر پانی کے سیلاب کیساتھ کیساتھ پتھروں کا سیلاب بھی آئے گا،جیسا کہ آیا اور اس نے بستیوں کی بستیاں اجاڑ کر رکھ دی۔
پاکستان میں urbanization پوری دنیا کی بانسبت سب سے زیادہ ہے،پنجاب میں جہاں جہاں زرعی زمین ہے،وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیز دھڑا دھڑ بنائی جا رہی ہیں جبکہ خیبر پختونخوا میں سیاحت کے فروغ کے لئے بنا کوئی پلاننگ کے درخت اور پہاڑ کاٹ کر ہوٹلز،ریسٹورنٹس کھولے جا رہے ہیں، یوں پیسے بنانے کے لالچ میں نیچرل ایکو سسٹم تباہ کر دیا گیا ہے۔
اب جب بھی کھبی معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں، ڈیمز نا ہونے کی وجہ سے وہ پانی سٹور ہوتا نہیں،اور کتنا پانی تباہی مچاتا سمندر میں گرتا ہے اور پھر قحط سالی ہمارا منتظر ہوتی ہے۔ زیادہ بارشوں کی وجہ،پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے میں جگہ جگہ تجاوزات کی وجہ سے وہ پانی بستیوں کی بستیاں تباہ کر دیتا ہے اور ہمارے علماء دین کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ تباہ کاریاں ہمارے اعمال کا نتیجہ ہیں،لہذا توبہ کریں ۔
اپنی غلطیوں، نالائقیوں ،نااہلیوں کو مذہب کے لبادے میں چھپا کر اپنی جان چھڑوانا ہمار قومی مشغلہ ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم پاکستانی تھوڑا سا عقل کو ہاتھ ماریں،اور جگہ جگہ کنکریٹ کی عمارتیں نا کھڑی کریں، ورنہ آپ الٹے لٹک جائیں،آپ قدرت سے نہیں جیت سکتے اور پھر آپ کی عمارتیں ان آفات کا سامنا نہیں کر سکیں گی،جیسا کہ ہو رہا ہے۔ کاربن آمیشن میں پوری دنیا میں سب سے بڑا ہاتھ چائنہ اور امریکا ہے۔ انکی معشیتیں اتنی مضبوط ہیں،کہ وہ کسی بھی قدرتی آفت کے بعد دوبارہ کھڑا ہو سکتے ہیں،جبکہ پاکستان جیسا غریب ملک مفت میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے رگڑا جا رہا ہے ( لیکن ہماری اپنی، نالائقی اور نااہلی زیادہ ہے).
عالمی پیرس معاہدہ برائے موسمیاتی تبدیلی پر عملدرآمد کی سب سے زیادہ ضروت ہمارے ملک پاکستان کو ہے،جس پر کوئی بھی مضبوط معیشت سریس نظر نہیں آتی اور یہی رونا ہے۔
تبصرہ لکھیے