ہوم << قصوروار سمجھنا آسان یا مشکل ترین - عبدالعلام زیدی

قصوروار سمجھنا آسان یا مشکل ترین - عبدالعلام زیدی

دکھ اور تکلیف اس زندگی کی حقیقت ہیں ، بہت سارے کیسز میں ان کا تعلق کسی خاص فرد سے نہیں ہوتا ۔ خود زندگی سے ہوتا ہے ۔ کلچر ، سوچ ، حالات ، صورتحال سے ہوتا ہے ۔ بہت سارے کیسز میں تکلیف کا سورس خود ہمارے اپنے پیٹرنز ہوتے ہیں ، ہمارا ماضی اور اس سے نکلے ہوئے پیٹرنز اور عادتیں دکھوں کو دعوت دیتی ہیں ۔

جیسے لوگوں کو خوش کرنا ، باونڈری نہ بنا پانا ، توجہ لینے کے لیے ابنارمل کام کر بیٹھنا ، خود کے لیے کھڑا نہ ہو سکنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سارے پیٹرنز ہمیں دکھ دیتے ہیں ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمیں جب دکھ ملتے ہیں ، تو تب ہمیں ایک ہی بات سکھائی گئی ہے کہ اس کی ذمہ داری کسی دوسرے پر ڈال دی جائے ۔ یہ فرار کا سب سے آسان راستہ ہوتا ہے ۔ اس راستے پر چلنے والے کو سب سے بڑا فائدہ یہ ملتا ہے کہ وہ زخم اور سچائی کی بڑی تصویر نہیں دیکھتا اور شاید وہ یوں ایک طرف خود پر کوئی ذمہ داری نہیں لیتا ۔

دوسرا اسے دوسروں پر حالات اور حادثات کی ذمہ داری ڈالنے کا مزہ بھی ملتا رہتا ہے ۔ مزہ صرف وہ نہیں ہوتا کہ جس سے آپ کو لطف اور خوشی ملے ، بسا اوقات دشمنی ، نفرت بھی مزہ دیتے ہیں ، خود کو زیرو کرنا اور حسد و رشک کی آگ میں جلنا بھی مزہ دیتا ہے۔ ایسا مزہ کہ جس میں مریض خود بھی روتا ہے اور جس پر الزام لگا رہا ہے ، قصووار ٹھہرا رہا ہے اس کو بھی رولاتا ہے یا پھر اس کے رونے کا انتظار کرتا ہے ۔ یہ انتظار بھی مزہ دیتا ہے ! حقیقت دیکھنے سے آپ کو اپنے پیٹرنز بدلنے پڑتے ہیں ، اپنی اصلاح کی جانب جانا پڑتا ہے ، اپنے دشمن بدلنے اور پہچاننے ہوتے ہیں ، جسے ساری عمر دشمن سمجھا ۔ کیا پتہ کہ وہ حقیقت جاننے کے بعد دشمن ہی نہ لگے اور جسے دوست سمجھتے رہے ، وہی دشمن دکھائی دے ۔

الزام دینا ، دشنام دینا ، قصووار ٹھہراناایک نئی باونڈنگ وجود دیتا ہے. کچھ لوگوں کو ہم ساتھ ملاتے ہیں جو ہمارے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں ، ہمارے نعرے لگاتے ہیں ، ہمیں دکھی اور مظلوم سمجھتے ہیں. حقیقت دیکھنے سے یہ باؤنڈنگ ٹوٹ سکتی ہے ، ہمدردی لینے کا عمل رک سکتا ہے ، مظلومیت کا احساس ختم ہو سکتا ہے. یوں ہم بہت سے مزوں سے محروم ہو سکتے ہیں ۔ حقیقت کا سامنا کرنا ، بہادروں کا کام ہے ۔ حقیقت جاننے کا پہلا قدم خود کو جاننا ہے ، اپنی اچھائیوں اور کمزوریوں کو سمجھنا ہے اور پھر خود کو کہیں معاف کرنا ہے اور کہیں خود کو قبول کرنا ہے ۔ جب ہم خود کو قبول کر لیتے ہیں تو تب ہم اپنے ساتھ چلنے والوں کو بھی قبول کر پاتے ہیں ۔ جب تک ہم خود کو اپنی کمزوریوں سمیت قبول نہیں کرتے تب تک ہم دوسروں کو بھی درست طریقے سے دیکھ بھی نہیں سکتے ۔

یہ مضمون ایک لحاظ سے اللہ کی تقدیر پر ایمان سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ اس پر پھر کبھی مزید بات کریں گے ۔ زندگی ایسی ہی ہے ، نامکمل ، بے وفا ، پریشان ، قصووار محسوس کرنام کبھی خوشی کبھی غم ، کچھ اچھی کچھ بری ، کبھی بارش کبھی گرم ہوا ، کبھی دن کبھی رات۔ یہی اس زندگی کا حسن اور حقیقت ہے ۔ ایسے ہی رشتے اور لوگ ہیں ۔ کبھی ہم بارش میں گیلے ہوتے ہیں اور کبھی چھتری کے نیچے آتے ہیں ، کبھی سورج کی کرنوں کے مزے لیتے ہیں اور کبھی اے سی میں یوں ہی ہمارے اردگرد ، ہمارے پیارے اور اپنے ہوتے ہیں ۔ ان سے کہیں ملنا ہوتا ہے اور کہیں فاصلہ رکھنا ہوتا ہے ، کہیں جھپیاں اور کہیں باؤنڈری، یہ یوں ہی چلتا ہے ۔

ہاں بس اگر اپنے زخموں کا ذمہ دار کسی ایک انسان کو قرار دینا ، اس کی نفرت میں جینا ، قطع تعلقی ، اس کی اچھائیوں سے آنکھیں بند کرنا ، اس کے احسانات کو نہ دیکھ پانا۔ اگر ایسا ہمارے ساتھ ہو رہا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم زندگی کو قبول نہیں کر رہے ، حقیقت کو دیکھ نہیں رہے ۔ گلاب حاصل کرنے اور ان کی خوشبو لینے میں کانٹے چھبا کرتے ہیں جو کانٹوں کے درد نہیں سہہ سکتے ان کے گھر پھولوں سے خالی رہتے ہیں اور انہیں انکی خوشبو بھی نصیب نہیں ہوتی ۔ تو خوش رہیں ، اور اللہ کی قضا پر راضی رہیں. یہ زندگی تو ایسی ہی ہے ، ہاں جنت کی زندگی ویسی ہی ہے جیسی ہم خیالوں میں سوچتے ہیں بلکہ اس سے بھی کہیں اعلیٰ و ارفع !

آپ ﷺ یوں دعا کیا کرتے تھے :
واسالك الرضاء بعد القضاء , واسالك برد العيش بعد الموت , واسالك لذة النظر إلى وجهك والشوق إلى لقائك في غير ضراء مضرة ولا فتنة مضلة " میں تجھ سے تیری قضاء ( فیصلوں ) پر رضا کا سوال کرتا ہوں، اور میں تجھ سے موت کے بعد کی راحت اور آسائش کا طالب ہوں، اور میں تجھ سے تیرے دیدار کی لذت، اور تیری ملاقات کے شوق کا طالب ہوں، اور پناہ چاہتا ہوں تجھ سے اس مصیبت سے جس پر صبر نہ ہو سکے، اور ایسے فتنے سے جو گمراہ کر دے ۔"
( سنن نسائی ، البانی نے صحیح قرار دیا ہے)

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment