600x314

عوام، مفت دوائی اور ڈاکٹرز – ڈاکٹر محمد شافع صابر

تو کل ملا کر بات اتنی سی ہے کہ حکومت پنجاب نے ڈاکٹروں پر پابندی لگا دی ہے کہ وہ کسی بھی مریض کو کسی بھی قسم کی کوئی بھی دوائی باہر سے نہیں لکھ کر دیں گے۔ ایمرجنسی میں مریض کو فرسٹ ایڈ دیں، ٹانکے لگائیں، شارٹ ایڈمیشن کر کے دوائی لگائیں،لیکن ڈسچارج کرتے دوائی باہر سے نہیں لکھ کر دینی ۔ جو مریض ہسپتال میں داخل ہیں،انہیں آٹھ سے دو بجے کے درمیان ڈسچارج کریں اور وہ OPD ( شعبہ بیرونی مریضاں) جا کر دوائی لیں۔

میں نے اپنے ایک SR ( سینئر رجسٹرار) سے یہ ساری بات ڈسکس کی،کہ اس سے سارا نقصان تو مریضوں کا ہونا ہے جو مفت دوائی کے چکر میں رگڑے جائیں گے،وہ بولے! یار اس عوام سے ہمدردی مت کرو، یہی عوام بعد میں جا کر کمپلین کرتی ہے کہ ہمیں دوائی باہر سے لکھ کر دی ہے ۔ انہی حرکتوں کی وجہ سے ڈاکٹر کو نوکری سے نکالا جا چکا ہے۔
اگر ایک دوائی ہسپتال میں میسر نہیں تو ہسپتال کی انتظامیہ کو کوئی کچھ نہیں کہتا،مریض سارا الزام ڈیوٹی ڈاکٹر کو دیتا ہے تو اس ماحول میں کوئی باشعور ڈاکٹر کیسے کام کر سکے گا؟ ہسپتال کی انتظامیہ کی نااہلی کا سارا ملبہ آن ڈیوٹی ڈاکٹر پر گرتا ہے اور وہ مریض اور اسکے لواحقین کے لئے سب سے ایزی ٹارگٹ ہوتا ہے۔

اب مریض ٹھیک ہوتا ہے یا نہیں ،اب یہ ڈاکٹروں کا مدعا نہیں،وہ آئیں، ہسپتال میں جونسی بھی دوائی ہے،وہ لکھیں،اپنا ٹائم پورا کریں اور گھر جائیں،اللہ اللہ خیر سلا۔اس احسان فراموش عوام کے لئے کوئی بھی ڈاکٹر اپنی نوکری اور اپنا مسقبل ہر گز داؤ پر نہیں لگائے گا۔ ڈاکٹرز اپنی ساری انرجی صرف کر کے انکے مریض کی دیکھ بھال کریں،اور اگر ایک ٹیکہ بھی باہر سے لانا پڑ جائے تو یہ عوام آپکی ساری محنت صفر کر کے آپ کی کمپلین کر دے گی کہ ڈاکٹر نے دوائی باہر سے لکھ کر دی تھی اور پھر آپ پر انکوائری کمیٹی بیٹھے گی اور آپ آخر کار نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے، بدقسمتی سے اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔

تو آپ اب سرکاری ہسپتالوں میں حاتم طائی بننا چھوڑ دیں، سکون سے آئیں،جو ہے وہ لکھ کر دیں اور گھر جائیں،اپنا وقت پاس کریں اور سکون کریں، یہاں اگر آپ کچھ اچھا کرنا چاہیں گے،یا مریضوں کا بھلا چاہیں گے، آپ رگڑے جائیں گے۔ اگر آپکے مریضوں کو آپکی پرواہ نہیں،تو آپ بھی مت کریں۔اب کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ ڈاکٹر قصائی ہیں،انسانیت کا درد نہیں رکھتے، مریضوں کی صحت کا خیال نہیں رکھتے فلاں فلاں۔ تو جواب ہے ڈاکٹر مریضوں کی پرواہ کرتا کرتا خود نوکری سے نکل جائے؟ خود پر انکوائری مسلط کروائے؟ خود بیروزگار ہو جائے؟

ایک ڈاکٹر کی بھی فیملی ہے، اگر وہ بیروزگار ہو گیا تو وہ اپنا خاندان کیسے پالے گا، تو انسانیت کا چورن اپنے پاس رکھیں۔ اس عوام نے ڈاکٹر کو دیا ہی کیا ہے؟ سوائے انکی کمپلینیں کرنے کے ان، پر انکوئری کروانے کے تو اب ڈاکٹروں نے یہی سوچا ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی اس عوام کو اسی کے حال پر چھوڑ دیا جائے ۔ ایک کنسلٹنٹ صاحب کی کال آئی،کہتا یار شرم بھی آتی ہے اور اس سسٹم سے مایوس بھی ہو چکا ہوں، ہر مرض صرف چند میسر دوائیوں سے ہی ٹریٹ کر رہا ہوں ، کیونکہ اگر باہر سے لکھوں گا،نوکری سے جاؤ گا۔ بولے اس پر کچھ لکھوں ، جواب دیا:

بھینس کے آگے بین بجانے کا کیا فائدہ ؟
اب ہمارے پاس افسوس اور مایوسی کے سوا بچا بھی کیا ہے؟؟
سچ لکھیں یا بولیں تو پیڈا بھی لگتا ہے اور پیکا بھی!

مصنف کے بارے میں

ڈاکٹر محمد شافع صابر

مضمون نگار ڈاکٹر ہیں اور سر گنگارام ہسپتال ،لاہور میں آرتھوپیڈک سرجری میں پوسٹ گریجویٹ ٹریننگ کر رہے ہیں.

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment