ملکِ پاکستان کا وجود محض ایک جغرافیائی حقیقت نہیں، بلکہ یہ کروڑوں دلوں کی دھڑکن اور لاکھوں شہیدوں کے خون سے لکھی گئی کہانی ہے۔ چودہ اگست کا دن اس قربانی، ایثار اور محبت کا دن ہے جو ہمارے آباؤ اجداد نے اس دھرتی کے لیے پیش کیا۔ یہی دن ہے جب ہر پاکستانی کے دل میں وطن کی محبت ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ جاگ اٹھتی ہے۔
اس سال بھی، ملک بھر کی طرح سوات میں جشنِ آزادی جوش و خروش سے منایا گیا۔ سکولوں میں بچوں کی معصوم مسکراہٹوں کے ساتھ سبز ہلالی پرچم لہراتا رہا، سرکاری اداروں میں قومی نغموں کی گونج سنائی دیتی رہی، اور بازاروں میں سبز و سفید رنگ کی بہار دکھائی دی۔ اس سال عوام کا جذبہ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمایاں تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ معرکہ حق کی شاندار کامیابی پر لوگ پرجوش نظرارہے تھے ۔14اگست نےلوگوں کو یاد دلا دیا ہے کہ یہ آزادی کتنی قیمتی ہے، اور اس کی حفاظت کے لیے ہم سب کو متحد رہنا ہوگا۔
یقیناً، عوام کو اپنے سسٹم، اداروں یا بعض افراد سے گلے شکوے ہو سکتے ہیں، اور یہ فطری بات ہے۔ لیکن یاد رکھیے! وطن سے محبت کسی شرط یا معاہدے کی محتاج نہیں۔ یہ ایک فطری اور غیر اختیاری جذبہ ہے، جو دل میں اللہ کی طرف سے ودیعت کیا گیا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان والے کبھی اس محبت سے غافل نہیں ہو سکتے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اختلافات کو دشمن کی کمزوری نہ بننے دیں۔ تنقید ضرور کیجیے، لیکن ایسی جو اصلاح کا دروازہ کھولے، نہ کہ نفرت کا۔ اگر ماضی میں آنے والوں نے کوتاہیاں کی ہیں، اگر نظام میں نقائص موجود ہیں، تو محض شکایت پر اکتفا نہ کریں۔
ہمت کیجیے، اٹھ کھڑے ہوں، اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ان نقائص کو دور کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ یہ ملک ہمارا ہے، اس کا مستقبل بھی ہمارے ہی ہاتھ میں ہے۔یاد رکھیے! پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی ریاست قائم کرنا تھا جہاں مسلمان اپنے دین کے مطابق آزادی سے زندگی گزار سکیں، اور دنیا کو عدل، مساوات اور بھائی چارے کا پیغام دے سکیں۔ بدقسمتی سے ہم نے کئی مواقع ضائع کر دیے، اور ہمارے اندرونی اختلافات نے ہمیں کمزور کیا۔ لیکن مایوسی کوئی حل نہیں۔ قومیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب وہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں اور نئے عزم کے ساتھ آگے بڑھیں۔
آج جب ہم چودہ اگست مناتے ہیں تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا ہمارا کردار صرف جشن منانے، جھنڈیاں لگانے اور نغمے گانے تک محدود ہے؟ یا ہم واقعی اس ملک کے لیے کچھ کر رہے ہیں؟ اگر ہم ہر شخص اپنی ذمہ داری پوری کرے، اپنے دائرہ کار میں دیانت داری اور محنت سے کام کرے، تو کوئی طاقت پاکستان کو ترقی کی راہ سے ہٹا نہیں سکتی۔ہمارے بچے بہتر تعلیم کے حقدار ہیں، ہمارے بیمار بہتر علاج کے مستحق ہیں، اور ہماری غریب آبادی کو بہتر روزگار کی ضرورت ہے۔ یہ سب خواب تبھی حقیقت میں بدلیں گے جب ہم سب اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے۔ یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ "کوئی اور" آ کر سب ٹھیک کر دے گا۔ پاکستان کو ٹھیک کرنے والا کوئی اور نہیں، بلکہ ہم خود ہیں۔
یہ ملک ہمیں تحفے میں نہیں ملا۔ اس کے پیچھے لاکھوں شہیدوں کا خون، لاکھوں ماں بہنوں کی قربانیاں اور لاکھوں خاندانوں کا ہجرت کا دکھ ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنا گھر بار، کاروبار، زمینیں، حتیٰ کہ اپنی جانیں بھی قربان کر دیں، تاکہ آنے والی نسلیں آزاد فضا میں سانس لے سکیں۔ آج ہم انہی کی قربانیوں کا پھل کھا رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب ہے کہ ہم اس امانت کی قدر نہ کریں؟آئیے، اس یومِ آزادی پر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ملک کے لیے نہ صرف جذباتی نعروں تک محدود رہیں گے بلکہ عملی طور پر بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ چاہے آپ ایک طالب علم ہیں، ایک تاجر، ایک استاد یا ایک سرکاری ملازم ۔ اپنے دائرہ کار میں بہترین کارکردگی دکھانا ہی سب سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت ہے۔
پاکستان زندہ باد کا نعرہ محض زبان سے نہیں بلکہ عمل سے بھی بلند ہونا چاہیے۔ اپنے ارد گرد صفائی رکھنا، ٹیکس ایمانداری سے ادا کرنا، دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا، جھوٹ سے بچنا اور دیانت داری سے کام کرنا ۔یہ سب وہ کام ہیں جو ملک کی بنیاد کو مضبوط کرتے ہیں۔آخر میں، ہمارا پیغام یہی ہے کہ پاکستان ہم سب کی مشترکہ امانت ہے۔ اختلافات اپنی جگہ، مگر یہ وطن ہماری پہچان ہے۔ اس کی عزت اور وقار کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے۔ آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ اپنی نسلوں کو ایک بہتر، خوشحال اور مضبوط پاکستان دے کر جائیں گے۔ یہی ہمارے شہیدوں اور قائدین کے خواب کی تکمیل ہوگی۔
تبصرہ لکھیے