آزادی ایک ایسی انمول نعمت ہے۔ جس کی قیمت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی اور اس کی قدر وہی جانتا ہے جس نے غلامی کی زنجیروں کا بوجھ اٹھایا ہو اور اپنی سانسوں میں محکومی کا بوجھ محسوس کیا ہو۔ حریت کا سفر کبھی پھولوں کی سیج نہیں ہوتا، یہ کانٹوں سے بھری وہ دشوار گزار راہ ہے.
جس پر چلنے والے اپنے لہو کے چراغ جلاتے ہیں تاکہ آنے والی نسلیں روشنی میں سانس لے سکیں۔ ہماری تاریخ ان عظیم قربانیوں سے منور ہے. جنہیں یاد کر کے دل فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور آنکھیں عقیدت سے بھیگ جاتی ہیں۔ یہ قربانیاں محض زمین کے ٹکڑوں کے لیے نہیں تھیں بلکہ ایمان، عزت، غیرت اور آزادی کے مقدس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے دی گئیں۔ کسی نے اپنے گھر بار کو جلا کر قافلۂ آزادی میں قدم رکھا، کسی نے جوان بیٹے کا جنازہ اٹھایا مگر ہونٹوں پر شکر کے الفاظ رہے۔ کسی ماں نے بیٹے کو کفن میں لپٹا کر کہا:
"بیٹا! تم نے اپنا وعدہ پورا کر دیا".
شہیدوں کے خون نے اس مٹی کو سرخ گلوں کی خوشبو عطا کی اور مجاہدوں کے عزم نے غلامی کی سیاہ رات کو چیر کر آزادی کا سویرا دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ حریت کا پرچم ہمیشہ ان ہی کے ہاتھ بلند رہتا ہے جو جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔
لہو سے جو چراغ جلے وہ کبھی نہیں بجھتے
یہ قافلے شہیدوں کے ہیں جو رک نہیں سکتے
آزادی کے متوالوں نے ہر دور میں قربانی کی ایسی مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک یاد رکھی جائے گی۔ ان کے قدموں کی دھول بھی ہمارے لیے امانت ہے۔ کیونکہ انہوں نے اپنے لہو سے یہ خاک مقدس بنائی۔ وہ زخم کھا کر بھی مسکرائے، زنجیروں میں جکڑے جا کر بھی دعا دیتے رہے۔ ان کی پیشانیوں پر غلامی کا پسینہ نہیں بلکہ قربانی کا نور چمکتا تھا اور ان کی آنکھوں میں ایک ہی خواب تھا ، آزاد فضا میں جینے کا خواب۔
کوئی مٹی کو خون سے دھوتا ہے
تب جا کے وطن آزاد ہوتا ہے
آزادی کی قیمت محض الفاظ میں نہیں سمائی جا سکتی، یہ وہ قرض ہے جو ہم پر شہیدوں کا ہے۔ آج ہم جس آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، یہ ان ماؤں کے آنسوؤں اور ان بہنوں کی قربانی کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنے سہاگ قربان کیے۔ یہ ان باپوں کا صبر ہے جنہوں نے لختِ جگر کھو کر بھی سر جھکنے نہ دیا۔ ان کی نیندیں، ان کا سکون اور ان کی زندگیاں سب کچھ قربان ہوا تاکہ ہم غلامی کے اندھیروں سے نکل کر آزادی کے سورج کی کرنوں میں نہا سکیں۔
وطن کی خیر ہو ہر دم، دعائیں ساتھ رہیں
یہ زندگی بھی، یہ جاں بھی، سب کچھ نثار کریں
اگر ہم واقعی ان قربانیوں کی لاج رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے کردار، اپنی امانت داری اور اپنے اتحاد کو مضبوط بنانا ہوگا۔ حریت کی بقا صرف میدانِ جنگ میں نہیں بلکہ اخلاق، عدل اور بھائی چارے میں بھی ہے۔ جو قوم اپنی اقدار سے پیچھے ہٹ جائے، اس کی آزادی بھی دھندلا جاتی ہے اور شہیدوں کا خون ہم سے سوال کرنے لگتا ہے۔
لہو میں ڈوب کے لکھی ہے داستاں ہم نے
وطن کی شان کو ہر دم جواں رکھا ہم نے
آئیں ہم عہد کریں کہ اس آزادی کو کبھی ماند نہ ہونے دیں گے اور شہیدوں کی قربانیوں کا قرض ایمان داری، یکجہتی اور وطن سے محبت کے جذبے کے ساتھ چکائیں گے۔ کیونکہ حریت کا حقیقی حق وہی ادا کرتا ہے جو قربانی کے مفہوم کو دل سے سمجھتا ہو اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔
تبصرہ لکھیے