ہوم << پاکستان، اللہ کی نشانی ہے - عبدالجبار سلہری

پاکستان، اللہ کی نشانی ہے - عبدالجبار سلہری

تاریخ میں کئی ریاستیں معرضِ وجود میں آئیں، مگر دنیا میں دو ریاستیں ایسی قائم ہوئیں جن کی بنیاد خالص دینی نظریات پر رکھی گئی. ایک اسرائیل اور دوسری پاکستان....

پاکستان جس کی اساس لا الٰہ الا اللہ پر رکھی گئی. نہ تو صرف سیاسی جدو جہد کا نتیجہ تھا، نہ ہی کسی جغرافیائی تقسیم کا اتفاق. بلکہ یہ تو دعائے مظلوم، اشکِ مجاہد اور نعرۂ تکبیر کا وہ معجزہ تھا جو صدیوں کے جبر کے بعد تقدیر کی کتاب سے ابھرا۔ قائد اعظم کے فرمان کے مطابق پاکستان اسی روز قائم ہو گیا تھا جب برصغیر میں پہلے شخص نے کلمہ شہادت پڑھا تھا۔ تب سے اب تک توحید کے ہر پروانے کے دل میں محبت پاکستان کی شمع روشن ہے۔ الکھ نگری صفحہ 968 پر ممتاز مفتی لکھتے ہیں کہ 1857ء میں جب ہندوستان میں پہلی جنگِ آزادی لڑی گئی، نے فرنگی عہد کا نام و نشان مٹا دیا۔ تب حضرت مہاجر مکّیؒ نے ایک علاقے پر قبضہ کرکے وہاں اسلامی حکومت قائم کر لی۔

یہ اسلامی حکومت کچھ عرصہ قائم رہی پھر انگریزوں نے اپنا لشکر روانہ کرکے فرنگی فوج، توپ، بندوق، اسلحہ، کیمپ اور نفری منگوائی اور ہر ممکن کوشش کرکے اس حکومت کا خاتمہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انہوں نے حضرت مہاجر مکّیؒ کی اسلامی ریاست کا خاتمہ کر دیا۔ گولا باری کی اور اس میں شدت بڑھا لی، حضور مہاجر مکّیؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔ حضرت مہاجر مکّیؒ کا مسلمانوں میں بڑا اثر و رسوخ تھا، یہاں تک کہ غیر مسلم بھی ان کا احترام کرتے تھے۔ انگریز ڈرتا تھا کہ حضور کی گرفتاری پر حالات خراب نہ ہو جائیں، ساتھ ہی وہ اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے ضروری سمجھتا تھا کہ ان کی بے توقیری کرے، لہٰذا انگریز نے حضور کے ہاتھ باندھ دیے اور بر سرِ عام ان کا جلوس نکالا۔

ایک لحیم شحیم مجذوب نے جلوس کے راستے کو روک لیا، وہ حضور سے مخاطب ہوا:
”دیکھ یہ نا سمجھیو کہ تمہاری کوشش ناکام گئی جو بیج تو نے بویا ہے، نوے سال بعد اس میں سے کونپل پُھوٹے گی۔“
نوے سال بعد قیامِ پاکستان عمل میں آیا۔ حضرت مہاجر مکّیؒ کے آخری مرید جناب حاجی عبدالمجید نے جن کا سال ہی میں اسلام آباد میں انتقال ہوا، یہ چمکتا ایک تارا ہوا، انہوں نے اس واقعے کی تصدیق کی۔ جب 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قائداعظم محمد علی جناحؒ نے علیحدہ ریاست کی بات کی، تو بہت سوں نے اسے خام خیالی سمجھا۔ مگر یاد رکھو، بقول شاعر:

جو کر رہا ہے فلک، نقش پاۓ تقدیر
وہ خاک کیا جانے، خاک میں کیا چھپا ہے؟

قیامِ پاکستان، درحقیقت، ایک مظلوم قوم کی اجتماعی دعاؤں کا ایسا قبول شدہ لمحہ تھا، جو اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نمایاں نشانی بن کر ابھرا۔ سورہ آل عمران آیت 160 میں اللہ فرماتا ہے:
”اگر اللہ تمہاری مدد کرے، تو کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا۔“

کیا یہ آیت پاکستان کے قیام پر صادق نہیں آتی؟ برطانیہ جیسی سلطنت، ہندو اکثریت کی سازشیں، سکھوں کی عداوت، اور داخلی کمزوریاں ان سب کے باوجود ایک ایسی ریاست کا وجود میں آ جانا جو کلمہ گو افراد کی پناہ گاہ ہو، یہ خود ربّ کی مدد کی دلیل نہیں تو اور کیا ہے؟ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے نمرود کی سلطنت کو للکارا، تو آگ کو پھولوں کا بستر بنا دیا گیا۔ بعینہٖ، جب برصغیر کے مسلمان اپنی شناخت کے لیے اٹھے، تو انگریز کی سیاست، ہندو کی معیشت اور سکھ کی بندوق، تینوں نے مل کر مخالفت کی۔ مگر قدرتِ خداوندی کا فیصلہ کچھ اور تھا بقول شاعر :

جلا کے رکھ دیا ظلمت کو جس چراغ نے
وہ ایک ننھا سا شعلہ، پاکستان ہے!

پاکستان ایک نظریہ ہے، زمین کا ٹکڑا نہیں۔ یہ نظریہ اسلام کے آفاقی اصولوں پر مبنی ہے۔ مساوات، عدل، اخوت، اور حریتِ فکر۔ لیکن افسوس، آج ہم نے اس نظریے کو فقط یومِ آزادی کی تقریروں تک محدود کر دیا ہے۔ جب نظریہ کمزور ہو تو زمین خطرے میں آ جاتی ہے۔ پاکستان کا مطلب، لا الہ الا اللہ، صرف ایک نعرہ نہیں تھا بلکہ ایک عہد تھا کہ ہم اس ملک کو قرآن و سنت کے مطابق چلائیں گے۔ مگر کیا آج کا پاکستان اس عہد پر قائم ہے؟ یہ سوال ہمیں روزانہ اپنے ضمیر سے پوچھنا ہوگا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 28 مارچ 1941 کو دہلی میں فرمایا:

”پاکستان کا مطلب صرف ایک ریاست حاصل کرنا نہیں، بلکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہے۔“ (خطباتِ قائداعظم، مطبوعہ نیشنل بک فاؤنڈیشن)
اسی طرح علامہ اقبال نے اپنے خطبہ الہٰ آباد 1930 میں فرمایا تھا:
”میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست چاہتا ہوں جہاں وہ آزادانہ اسلامی اقدار کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں۔“
( Speeches and Writings of Iqbal, edited by Latif Ahmad Sherwani)

اللہ کی نشانی کیا ہوتی ہے؟ سورہ حم سجدہ آیت 53 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اندر بھی، یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یہ (اسلام) ہی حق ہے۔“
کیا پاکستان ایک ایسی نشانی نہیں جو آفاقی طور پر اسلام کی حقانیت، مسلمانوں کی بقا اور اللہ کی قدرت کا مظہر و کرشمہ ہے؟

یاد رکھو!
یہ سرزمینِ پاک محض ایک نقشہ نہیں، یہ ایک عہدِ خداوندی ہے۔ یہاں غداری محض جرم نہیں، قانونِ قدرت کی ضد ہے اور جو بھی اس ضد پر ڈٹا، وقت نے اُسے عبرت کا نشان بنا کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔
لیاقت علی خان نے جب ریاست کے نظریے پر پہلا سمجھوتہ کیا، گولی نے فیصلہ سنا دیا۔ سکندر مرزا نے آئین کی قبر کھودی، لندن کے ہوٹلوں میں برتن دھو کر کفارہ ادا کیا۔ ایوب خان نے جمہوریت کا گلا گھونٹا، انجام گوشۂ گمنامی میں رُلنا لکھا گیا۔

یحییٰ خان نے ملک توڑا، مے کشی میں برباد ہوا، کوئی فاتحہ خوانی کو نہ آیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے قوم کو نعرے بیچے، اسی تختۂ دار پر جھولے جہاں انصاف پکار رہا تھا۔بینظیر بھٹو نے بیرونی ایجنڈے کی گود میں پناہ لی، تو اُسے ایک جلسے میں گولی نے خاموش کر دیا۔ پرویز مشرف نے آئین روند کر ”سب سے پہلے پاکستان“ کہا، اللہ نے اُس پر ایسی بیماری مسلط کی کہ کف افسوس ملتا رہا۔ نواز شریف نے سودی نظام کو پاکستان میں لایا اللہ کو چیلنج کیا، تو تخت سے فرش تک کا منظر نامہ رقم ہو گیا۔زرداری نے ملکی دولت کو اپنی جاگیر سمجھا، تو عوام نے اُسے مسکراہٹوں میں دفن کر دیا۔ عمران خان نے ریاست مدینہ کا نام لے کر فتنہ کھڑا کیا، تو آج وہ تنہائی، رسوائی اور بند دروازوں کا قیدی ہے۔

جس نے بھی اس مٹی کے نظریے سے کھلواڑ کیا، اللہ نے اُسے زمین پر رسوا اور آسمان پر لعنت زدہ کر دیا۔یہ صرف سیاسی تاریخ نہیں، یہ ربِ ذوالجلال کا نظامِ عدل ہے، جو ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ رکھتا ہے، ہر نمرود کے لیے ایک ابراہیم، اور ہر ابو جہل کے لیے ایک بدر۔ پاکستان اللہ کے نام پر بنا ہے، جو بھی اس کے خلاف چلا، وہ یا تو گولی سے مارا گیا، یا بیماری سے، یا ذلت سے، یا خاموش موت سے۔ سب نشانِ عبرت بنے، سب کی قبریں گواہ ہیں۔ یہ رب کی زمین ہے. یہاں غداروں کے لیے جگہ نہیں۔ یاد رکھو! تاریخ خاموش نہیں، ہر چوراہے پر دہائی دیتی ہے:
”جس نے پاکستان کے ساتھ غداری کی، وہ آج نشانِ عبرت ہے!“

پاکستان کو فقط زندہ قومیں ہی سنبھال سکتی ہیں۔ وہ قومیں جو ماضی کو آئینہ بنائیں، حال کو چراغ، اور مستقبل کو مقصد۔ ہمیں اپنے دلوں میں یہ ایمان تازہ کرنا ہوگا کہ پاکستان فقط ہمارا وطن نہیں، یہ اللہ کا انعام ہے۔ ایک نشانی، ایک امانت۔ بقول شاعر:

یہ خاکِ پاک جسے خون سے تم نے سیراب کیا
یہ ہے وہ باغ جسے رب نے عطا کیا!

آئیے، دعا کریں کہ ہم اس نشانی کے محافظ بن سکیں۔ نہ صرف زبان سے ”پاکستان زندہ باد“ کہیں، بلکہ عمل سے ”اسلام زندہ باد“ ثابت کریں کیونکہ یہی پاکستان کی اصل روح ہے، یہی اس کی پہچان، اور یہی اس کی بقا۔