شعور کی دنیا لا شعوری کی دنیا سے بڑی عجیب تر ہوتی ہے اور ہماری دنیا میں جس شعور کے ساتھ لا شعوری قوم میں ڈالی جاتی ہے اگر اس کا شعور کسی کو مل جائے تو اس کیلئے بیٹھنا تک محال ہو جائے۔ اگر ذرا غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ شعور اور شور میں صرف ایک "ع" کا فرق رہ جاتا ہے، لیکن یہ "ع" ہی عین وہ چیز ہے جو شعور کو شور سے ممتاز کرتا ہے۔
اس کو آپ "علم" کا "ع" سمجھ لیں، کیونکہ جہاں علم وعرفان نہ ہو وہاں صرف بے ترتیبی ہوتی ہے، اور بے ترتیبی کا نتیجہ عدمِ توازن نکلتا ہے جس کی وجہ شعور نہ ہونا ہے۔ اگر شعور سے یہ "ع" نکال دیا جائے تو بغیر علم کے کھوکھلا پن رہ جاتا ہے، گویا کے کوئی ڈھول ہو اور صرف شور ہی شور ہو۔ پاکستان کی آزادی کو اسّی سال ہونے کو ہیں، آٹھ دہائیوں پر محیط عمر اس ملک کی ہونے والی ہے، کوئی تیسری نسل ہے جو اس ملک کو کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، لیکن ذرا مڑ کر دیکھا جائے تو لگتا ہے سالوں کے فاصلوں اور دہائیوں کے سفر کو طے کرتے کرتے آزادی کا حقیقی شعور ہمارے لئے متاعِ گم گشتہ ہو چکا ہے اور ہم ہر سال شعور کی سیڑھیاں چڑھنے کے بجائے شور کی منازل طے کر رہے ہیں۔
ہم اپنے آزادی کے مقاصد کو بھلا کر اور ان مقاصد کی تکمیل کیلئے کوشش کرنے کے بجائے روز بروز آلات ضرب و طرب میں آگے بڑھتے جا رہے ہیں ، اور شعور کی جگہ شور کو دئے چلے جا رہے ہیں۔ سس قوم کی کر ہر نئی پود آزادی کے لیے دی گئی قربانیوں کو بھلا کر اور اس سے اسباق و شعور حاصل کرنے کے بجائے بس آزادی کا شور و غوغا مچانے، گلچھڑے اڑانے اور ناچنے، گانے میں مصروف ہیں۔
مجھے تو بارہا منٹو کے افسانے کی وہ مائی یاد آ جاتی ہے جس کا سب کچھ آزادی کی راہ میں لٹ چکا تھا، مال و دولت کی فراوانی چھن چکی تھی، پھر جب اس نے نئی نسل کو آزادی کی بے قدری کرتے دیکھا اور اس آزادی سے فائدہ اٹھا کر بجائے با شعور بننے کے بے ہنگم سے شور کو بپا کرتے دیکھا تو تڑپ کر کہا:
"خدا تمہیں ایک بار پھر آزادی کی جد وجہد سے گزارے تو تمہیں بھی معلوم چلے کہ آزادی نعمت کتنی بڑی ہے، اور اس نعمت کے حصول میں کلفت کتنی زیادہ ہے"
آمدم بر سرِ موضوع!
بات یہ ہے کہ ہم بحیثیتِ مجموعی ایک طرح کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں جسے لا شعوری کا دلدل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اور جب کوئی معاشرہ لا شعوری کے مرض میں مبتلا ہو جائے تو اس کو بہت سے امراض از خود آ گھیر لیتے ہیں، جیسے خود فریبی، اخلاقی پستی، سیاسی بے ہنگمی اور بہت کچھ، ان سب کا لازمی نتیجہ جو نکلتا ہے جسے "شور" سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ صحیح غلط میں تمیز کرنے کا شعور تو ہوتا نہیں تو پھر ہر چیز کا شور ہی شور ہوتا ہے۔
جاپان کے حوالے سے ایک بات بڑی مشہور ہے کہ آزادی کے بعد سے ایک عرصہ تک ان کا یہ معمول رہا کہ جب بھی ان کا یومِ آزادی آتا تو وہ اس روز دو گنا کام کرتے اور اپنے اندر اگر کہیں لا شعوری کا مرض پایا بھی جانے لگتا تو اس کو اس روز خوب محنت کر کے مٹاتے، یوں ایک بار پھر وہ اپنی آزادی کی قدر وقیمت کو سمجھ پاتے، اور اپنے مقاصد کے شعور کو اجاگر کر پاتے، جس کا نتیجہ آج ایک با شعور معاشرے کا وجود ہے۔
لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر چیز کو سیلیبریٹ کرنے لگتے اور ہر موقع کا جشن منانے لگتے ہیں، اوپر سے جشن بھی کچھ اس انداز سے مناتے ہیں کہ جس سے شور تو بہت ہو، لیکن شعور کا وجود ہی مسخ ہو جائے۔۔۔۔اور یہیں سے ہم نے یومِ آزادی کو بھی صرف یومِ جشن بنانے کی رسم ڈال لی ہے کہ اس دن ہم شعور سے بالا اور شور پر مبنی ہر طرح کی سرگرمیاں کرتے ہیں اور یومِ آزادی کے حقیقی تصور کو مسخ کرتے چلے جاتے ہیں۔
لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ جس طرح کچھ لوگ مکمل شعور کے ساتھ لا شعوری کو بڑھانے اور پھیلانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، اگر اسی طرح کچھ لوگ خالص ہو کر اس لا شعوری کو مٹانے اور با شعور معاشرہ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یقینا کوششیں رائگاں نہیں جایا کرتیں، بلکہ محنتیں رنگ لاتی ہیں اور کاوشیں منزل پاتی ہیں۔ اس لئے آج ہی عزم کریں کہ ہم نے بے ہنگم سے شور میں شعور کو جگہ دینی ہے، اور ایک مثبت معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرنا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ:
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تبصرہ لکھیے