ہوم << آزادی کا پرچم - عدنان فاروقی

آزادی کا پرچم - عدنان فاروقی

ہر سال جشنِ آزادی سے پہلے شہر کی دیواریں رنگین نعروں سے سج جاتی ہیں—کسی کو سلام، کسی کو خراجِ تحسین۔ مگر سب سے بڑا سلام تو ان گمنام چہروں کو بنتا ہے جو روز مہنگائی کی چٹان سے ٹکرا کر بھی صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں۔ وہ لوگ جو مہنگی بجلی اور گیس کے بل بھرنے کے بعد بھی دل میں امید کا چراغ جلائے رکھتے ہیں۔

وہ جو سرکاری دفاتر کے بند دروازوں اور طویل قطاروں میں اپنی عزتِ نفس کا امتحان دیتے ہیں۔ جو پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکوں اور بدتمیزیوں کے باوجود اپنے سفر مکمل کرتے ہیں۔ جو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے مراحل طے کرتے ہوئے مایوسی کو شکست دیتے ہیں۔ بارش ہو تو کیچڑ میں گھرے رہتے ہیں، نہ ہو تو پانی کو ترستے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اب صرف سانس لینا بھی ایک عیاشی سا لگتا ہے۔ جن کے لیے ضروریاتِ زندگی، آسائشوں میں بدل چکی ہیں۔ یہ ہیں اصل محافظ، اصل محنت کش، اصل ستون اس ملک کے۔ اگر کسی کو سلام بنتا ہے تو وہ یہ خاموش مجاہد ہیں جو سب کچھ سہہ کر بھی جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔

ہم اکثر آزادی کو صرف ایک دن، ایک ترانے یا ایک جھنڈے کی لہر کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، مگر درحقیقت آزادی محض جغرافیہ کا نہیں، شعور اور وقار کا نام ہے۔ قومیں اس وقت سچ مچ آزاد ہوتی ہیں جب ان کا ہر شہری عزت کے ساتھ جئے، جب انصاف خریدنا نہ پڑے، جب روٹی دو وقت کے بجائے آسانی سے ملے، اور جب امید ایک نعرہ نہیں بلکہ زندگی کا حصہ بن جائے۔ اس لیے، جشن منانے سے پہلے شاید ہمیں رک کر سوچنا چاہیے: آزادی کا مطلب کیا ہم نے پایا یا کھو دیا؟ اور کیا اگلا سلام ان گلیوں میں چلتے عام انسان کو دینا زیادہ ضروری نہیں، جو آج بھی اس ملک کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں؟

چودہ اگست کے دن جب سبز پرچم فضاؤں میں لہرا رہا ہو، تو یاد رکھیں کہ اس کی ہر لہر میں ان کروڑوں محنت کشوں کی سانسیں شامل ہیں، جو خاموشی سے اس زمین کو تھامے ہوئے ہیں یہی وہ اصل رنگ ہیں جن سے آزادی کا پرچم مکمل ہوتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment