ہر سال جشنِ آزادی سے پہلے شہر کی دیواریں رنگین نعروں سے سج جاتی ہیں—کسی کو سلام، کسی کو خراجِ تحسین۔ مگر سب سے بڑا سلام تو ان گمنام چہروں کو بنتا ہے جو روز مہنگائی کی چٹان سے ٹکرا کر بھی صبح سویرے گھر سے نکلتے ہیں۔ وہ لوگ جو مہنگی بجلی اور گیس کے بل بھرنے کے بعد بھی دل میں امید کا چراغ جلائے رکھتے ہیں۔
وہ جو سرکاری دفاتر کے بند دروازوں اور طویل قطاروں میں اپنی عزتِ نفس کا امتحان دیتے ہیں۔ جو پبلک ٹرانسپورٹ کے دھکوں اور بدتمیزیوں کے باوجود اپنے سفر مکمل کرتے ہیں۔ جو اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں داخلے کے مراحل طے کرتے ہوئے مایوسی کو شکست دیتے ہیں۔ بارش ہو تو کیچڑ میں گھرے رہتے ہیں، نہ ہو تو پانی کو ترستے ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اب صرف سانس لینا بھی ایک عیاشی سا لگتا ہے۔ جن کے لیے ضروریاتِ زندگی، آسائشوں میں بدل چکی ہیں۔ یہ ہیں اصل محافظ، اصل محنت کش، اصل ستون اس ملک کے۔ اگر کسی کو سلام بنتا ہے تو وہ یہ خاموش مجاہد ہیں جو سب کچھ سہہ کر بھی جینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
ہم اکثر آزادی کو صرف ایک دن، ایک ترانے یا ایک جھنڈے کی لہر کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، مگر درحقیقت آزادی محض جغرافیہ کا نہیں، شعور اور وقار کا نام ہے۔ قومیں اس وقت سچ مچ آزاد ہوتی ہیں جب ان کا ہر شہری عزت کے ساتھ جئے، جب انصاف خریدنا نہ پڑے، جب روٹی دو وقت کے بجائے آسانی سے ملے، اور جب امید ایک نعرہ نہیں بلکہ زندگی کا حصہ بن جائے۔ اس لیے، جشن منانے سے پہلے شاید ہمیں رک کر سوچنا چاہیے: آزادی کا مطلب کیا ہم نے پایا یا کھو دیا؟ اور کیا اگلا سلام ان گلیوں میں چلتے عام انسان کو دینا زیادہ ضروری نہیں، جو آج بھی اس ملک کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں؟
چودہ اگست کے دن جب سبز پرچم فضاؤں میں لہرا رہا ہو، تو یاد رکھیں کہ اس کی ہر لہر میں ان کروڑوں محنت کشوں کی سانسیں شامل ہیں، جو خاموشی سے اس زمین کو تھامے ہوئے ہیں یہی وہ اصل رنگ ہیں جن سے آزادی کا پرچم مکمل ہوتا ہے۔
تبصرہ لکھیے