اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادوطن کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ اہلِ ہند جو ایک صدی سے انگریز کے غلام چلے آرہے تھے اور جس غلامی میں ہمارا ایمانی و تہذیبی ورثہ داؤ پر لگ چکا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بار پھر یہ موقع عنایت فرمایا کہ ہم اس آزادی کی قدر کرکے اپنی اگلی نسلوں تک اپنا ایمانی سلسلہ اور تہذیبی ورثہ صحیح سلامت ان تک پہنچائیں۔
آزادی ایک ایسی نعمت ہے جس کا متبادل کائنات میں کوئی چیز نہیں ہو سکتی. آزادی کے مقابلہ میں قیمتی سے قیمتی انمول موتی ہیرے اور جواہرات کی کوئی حیثیت اور قدر و منزلت نہیں. آزادی کی قدر و قیمت پوچھنی ہے تو محکوم قوموں سے پوچھیں، جن کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اور ایک ایک سانس تکلیف و پریشانی،ذلت و رسوائی میں برسوں کے برابر گزرتا ہے. یہ تو پروردگار کا کروڑہا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ آزادی جیسی گراں قدر اور بیش قیمت دولت محض اپنے فضل و کرم سے عطا فرما دی ہے. تو ہمیں چاہئے کہ اس کی قدرو منزلت کو پہچانیں اور اللہ کا شکر ادا کریں.
آج جو ہم آزاد ملک اور آزاد فضا میں من مانی اور سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، اپنے مذہبی فرائض و عبادات اور اسلامی رسومات کو آزادی سے ادا کر رہے ہیں. در حقیقت یہ سب ہمارے آباو اجداد اور ان بزرگوں مجاہدوں،غازیوں اور شہیدوں کی قربانیوں کی بدولت ہے، جنہوں نے اس وطن عزیز کے حصول کی خاطر جان، مال،اولاد،عزت و آبرو، تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا. اس مملکت خدا داد پاکستان کی تعمیر و ترقی اور بنیادوں میں لاکھوں مسلمانوں کی بے پناہ جدوجہد و قربانیاں اور شہداء کا خون شامل ہے۔
اسلام میں آزادی کو کتنا بلند مقام حاصل ہے،اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدے کو اختیار کرنے کے معاملے میں بھی اسلام نے انسان کو مجبور نہیں کیا ہے جیساکہ قرآن پاک میں ہے.
ترجمہ:
" ہم نے اس کو راہ سجھا دی، چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا".(سورہ الدھر، آیت 03)
یعنی اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایمان،عقیدہ اور توحید سے متعلق معاملات میں،جو کہ سب سے زیادہ اہم معاملات ہیں،انسان کو اختیار اور آزادی عطا کی ہے۔ یعنی سمیع و بصیر بنا کر اور اپنے نبیوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے شکر وکفر کا راستہ بتاکر اس کو اختیار دے دیا کہ وہ جس راستے کو چاہے اپنے لیے منتخب کرے۔جو راستہ بھی وہ اختیار کرے گا،اس کا ذمہ دار وہ خود ہوگا۔ چنانچہ فرمایا، ترجمہ:
"دین کے معاملے میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ہدایت گمراہی سے بالکل الگ ہوچکی ہے تو جس نے طاغوت سے انکار کیا اور اللہ پر ایمان لایا اس نے مضبوط رسی پکڑی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے ".(سورہ البقرہ، آیت 256)
اور ایک جگہ ارشاد فرمایا ،
ترجمہ:
" اور اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کرلیتے تو کیا تم لوگوں کو مجبور کرو گے کہ وہ مومن بن جائیں؟"(سورہ یونس، آیت99)
اور ایک جگہ فرمایا،
ترجمہ:
"تم یاددہانی کردو، تم بس ایک یاددہانی کردینے والے ہو۔تم ان پر داروغہ نہیں مقرر ہو."(سورہ الغاشیہ، آیات21-22)
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس نے افراط اور تفریط کی غیر فطری روش سے ہٹ کر اعتدال کی راہ اپنائی ہے۔اسلام کی نظر میں انسان پابند محض نہیں ہے کہ اس کو کسی طرح کے ارادہ واختیار کی آزادی نہ ہو۔اسی طرح وہ اس قسم کی موہوم اور بے مہارآزادی کو خارج کرتا ہے جو سماج میں انتشار اور بد امنی کا سبب بنے یا جس سے فساد فی الارض رونما ہوتا ہو۔اسلام ارادہ واختیار کی آزادی کو سراہتے ہوئے،جبر واکراہ کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام آزادی کو انسان کا بنیادی حق قرار دیتا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک ایسا فریضہ تصور کرتا ہے جس سے دست برداری جائز نہیں۔وہ ایک خدائے واحدکی بندگی کا پابند بناکر سیکڑوں خداؤں کی بندگی سے انسان کو آزادی دلاتا ہے.
انسانی بھائی چارے کو تقویت پہنچا کر مضبوط،پائیدار اور صحت مند سماج کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے جان، مال، دین، عقل، عزت وآبرو کی حفاظت کو یقینی بناکر ترقی وخوشحالی کے وسیع امکانا ت پیدا کرتا ہے۔ آزادی کا پروانہ عطا کرکے انسان کو سعادت دارین کی شاہ راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عہد جاہلیت سے جاری غلامی کے انسٹی ٹیوشن کا معقول اور منصوبہ بند طریقہ سے خاتمہ کیا۔جب اسلام آیا تو غلامی کی بہت سی شکلیں سماج میں رائج تھیں۔دنیا پرست انسان غلامی کے ذریعے انسانوں کا استحصال کررہے تھے۔ غلامی کے متعدد اسباب میں جنگ میں قید ی بنانا، غارت گر حملوں میں اُچک لینا،ماں باپ کا اپنے بچوں کو فروخت کردینا، رہن رکھ دینا، وغیرہ شامل تھا۔
اسلام نے صرف جنگی قیدیوں کو غلام بنانے کی اجازت دی،کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں تھا۔اسلام کے عطا کردہ حق حریت کا اطلاق ہر قسم کی آزادی پر ہوتا ہے اوریہ بہت سارے انسانی حقوق کی بنیاد ہے، مثلاً ایمان و عقیدے کی آزادی، مذہب کی آزادی،غور وفکر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی،کام کی آزادی،رہائش کی آزادی، ملکیت کی آزادی، فائدہ اٹھانے کی آزادی،سیاسی آزادی، شہریت کی آزادی، حتی کہ انسان کی انسانیت بھی اس کی آزادی کی مرہون منت ہے۔اسلام اپنے تصور آزادی کو حقوق وفرائض کے توسط سے عملی جامہ پہناتاہے کیوں کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔
اس لیے کہ جب تک حقوق کوفرائض سے مربوط اور منسلک نہیں کیا جاتا،انسان کا دوسرے انسانوں سے صحیح بنیادوں پر تعلق قائم نہیں ہوسکتا۔ دراصل اسلام کا تصور آزادی بہت وسیع ہے۔ اسلام جب انسان کی آزادی کی بات کرتا ہے تووہ انسان کو ہر اس چیز سے آزاد دیکھنا چاہتا ہے جو اس کی عزت وکرامت کو نیست ونابود کرنے والی ہو۔ چنانچہ وہ اس کے دل اور جذبات کوشیطانی محرکات اور نفسانی خواہشات کے غلبے سے آزاد کرتا ہے۔اس کی عقل اور سوچ کو اوہام وخرافات اور فکری انحرافات کی پابندیوں سے آزاد کرتا ہے۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کے لیے آزادی،عزت اور امتیاز کی زندگی پسند کی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:
ترجمہ:
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور خشکی اور تری دونوں میں ان کو سواری عطاکی۔اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیااور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت دی."(سورہ بنی اسرائیل، آیت70)
اسی سیاق میں حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنالیا جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا؟ انسان جب جواب دہی کی بات کرتا ہے تو وہ انسان کی تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ اسے ایک امانت خیال کر کے اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کرے۔ ایسا کرنا اسی وقت ممکن ہے جب کہ یہ بات بھی ایمان کے تقاضوں میں شامل ہو۔قرآن کہتا ہے کہ ترجمہ:
"اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں". (سورہ المعارج، آیت 32)
حضرت انس بن مالک ؓ سے ایک حدیث نبوی ﷺ مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"جو شخص امانت دار نہیں ہے اس کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں، اور جو شخص وعدے کا پابند نہیں ہے اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں."(مسند احمد، حدیث نمبر 12567)
اسلام تمام انسانوں کواپنے اپنے دائرہ عمل اور استطاعت ووسعت کے اعتبار سے جواب دہ قرار دیتاہے۔ حدیث میں ہے کہ ترجمہ:
" ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اس کی اپنی ذمہ داری کی بابت باز پرس ہوگی."(صحیح البخاری، حدیث نمبر2558)
انسان کی جواب دہی کا دائرہ صرف دنیاوی زندگی تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی مسؤ ولیت کا سلسلہ آخرت تک دراز ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کی اس انداز میں تربیت کرتا ہے کہ وہ جواب دہی کے معاملے کو آسان نہ سمجھیں۔خاص طور پر جب معاملہ عامۃ الناس کے مفادات کی نگرانی کا ہو۔اسلام میں ذمہ داری جتنی بڑی ہوتی ہے،احساس ذمہ داری بھی اسی قدرشدید ہوتا ہے۔اس ضمن میں آزادی کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے تاریخ گواہ ہے کہ 1947 ء میں جس وقت مسلمان بے سرو سامانی کے عالم میں ہندوستان سے ہجرت کر کے ٹرینوں میں بیٹھ کر پاکستان آ رہے تھے تو ہندوؤں اور سکھوں نے راستے میں مسلمان مردوں عورتوں بوڑھوں نوجوانوں اوربچوں کو انتہائی بے دردی اور سفاکی سے قتل کیا تھا کہ اس درندگی اور ظلم کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی.
ہندوستان کے گلی کوچوں اور بازاروں میں بھی خون کی بدترین ہولی کھیلی گئی اور ندی نالوں میں بہتی ہوئی مسلمانوں کی لاشوں اور خون سے رنگین پانی سے بھی آزادی کی صدائیں آتی تھیں. ہندوستان کی خونی فضائیں بھی مسلمانوں پر ظلم کی وجہ سے ماتم کر رہی تھیں، اس سے پہلے شائد آسمان نے ایسا خونی ہولناک منظر زمین پر نہیں دیکھا ہو گا، ہم عہد کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اپنے ملک پاکستان اور وطن عزیز کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے. آزادی صرف ایک لفظ ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر انسان کی دنیا کی ان گنت خوشیاں پوشیدہ اور پنہاں ہیں جو قومیں اس نعمت کی قدر نہیں کرتیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں.
آزادی کے حصول کیلئے ہمارے مشاہیر اور اسلاف نے حصول پاکستان کیلئے نصف صدی تک کن کن جانی، مالی قربانیوں کے نذرانے پیش کیئے ہیں،جن کی بدولت آج ہم آزاد وطن میں پر سکون زندگی گزار رہے ہیں، ہم پاکستانی دنیا کے کسی ملک میں بھی چلے جائیں ہماری اصل شناخت اور پہچان پاکستان ہی ہے۔ آزاد مملکت کی بدولت ہماری اور ہماری نسلوں کی پہچان ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اس آزادی کی نہ صرف خود قدر کریں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس دن کی مناسبت سے آزادی کا درس دیں تاکہ اس ملک کو حاصل کرنے کیلئے دی گئی بے پناہ قربانیوں کا حق ادا کیا جا سکے
اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو صبح قیامت تک قائم ودائم رکھے،تمام شرور فتنوں، مصائب، مشکلوں، آفات، دشمنوں کے شر سے،دہشت گردی جیسے لعنت سے محفوظ رکھے۔آمین ثم آمین
تبصرہ لکھیے