اصل ادارے وہی ہوتے ہیں جو محض علم نہیں دیتے، کردار بھی تراشتے ہیں۔ جو صرف سندیں نہیں بانٹتے بلکہ یادیں، وابستگیاں، اور ذمہ داریاں بھی اپنے طلبہ کے دل میں منتقل کرتے ہیں۔اوکاڑہ کی علمی پہچان، گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔
وقت کے دھارے پر چلتے ہوئے یہ ادارہ نہ صرف تعلیمی حوالوں سے مضبوط ہوا، بلکہ اس نے ایسے طالب علم پیدا کیے جو دنیا بھر میں اپنے شہر، اپنی مادرِ علمی، اور اپنے ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔انہی سابقہ طلبہ کے باہمی تعلق، جذبہ خدمت اور ادارے سے لازوال محبت نے جس پلیٹ فارم کو جنم دیا، وہ ہے اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن۔یہ صرف ایک کالج کی کہانی نہیں یہ کئی نسلوں کی امیدوں، خوابوں، اور محنتوں کی داستان ہے۔ گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ نہ صرف شہرِ علم کی علامت ہے بلکہ اس خطے کی تہذیبی شناخت، فکری بالیدگی اور تعلیمی وراثت کا امین بھی ہے۔
یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے ہزاروں طالب علموں کے دلوں میں اپنے مادرِ علمی سے وابستگی کی قدر مشترک ہے۔اسی جذبہ وابستگی کو ایک منظم شکل میں اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن نے اختیار کیا۔ یہ ایسوسی ایشن کسی رسمی بندوبست یا محض یادوں کے البم کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک زندہ اور متحرک تحریک ہے جو ''واپسی، خدمت، اور شکر گزاری'' کے جذبے پر قائم ہے۔
وہ جو بنیاد بنے
یہ ایسوسی ایشن دراصل ایک خواب کی تعبیر ہے، جس کا بیج پروفیسر ڈاکٹر حمود لکھوی نے بویا اور جسے ثمر آور باغ بنانے میں پروفیسر عبدالروف نے زندگی کی توانائی جھونک دی۔ پروفیسر عبدالروف جو آج بھی ایسوسی ایشن کے صدر کی حیثیت سے متحرک ہیں، ادارے سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اس مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کا اخلاص، محنت اور طلبہ کی بہبود کے لیے مسلسل سرگرمی، ایک مثالی باب ہے جو تعلیمی اداروں کے تاریخ دانوں کو ضرور قلمبند کرنا چاہیے۔ادارے سے اپنی روحانی نسبت کو قائم رکھتے ہوئے پروفیسر عبدالروف آج اس تحریک کے روح رواں ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے بعدان کا اوکاڑہ کالج کے لیے کام کرنا، ان کے کردار، عزم، اور احساسِ ذمہ داری کا وہ پہلو ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔انہوں نے ایسوسی ایشن کو محض رسمی اجلاسوں یا تصویری تقریبات کا نام نہیں بننے دیا، بلکہ اسے خدمت، رہنمائی اور عملی مدد کا ذریعہ بنایا۔ راقم الحروف اس ایسوسی ایشن کے قیام سے تادمِ تحریر اس کارواں کا ہمسفر ہے، اور ان تمام نشیب و فراز کا چشم دید گواہ رہا ہے جن سے گزر کر یہ کارخیر اپنے قدموں پر کھڑا ہوا۔
بلاشبہ پروفیسر عبدالروف نے کئی مواقع پر نامساعد حالات، بے حسی اور عملی دشواریوں کا سامنا کیا مگر ان کا عزم، حوصلہ اور مستقل مزاجی کسی چٹان کی مانند ڈٹی رہی۔ہم اولڈ بارینز ایسوسی ایشن گورنمنٹ گریجویٹ کالج اوکاڑہ میں نائب صدر (Vice President) کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔اس ادارے سے جذباتی، فکری، اور نظریاتی نسبت نے ہمیشہ مجھے تحریک دی ہے کہ نہ صرف قلم کے ذریعے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے بھی ادارے، طلبہ، اور اساتذہ کے لیے کچھ کر سکوں۔
چراغ سے چراغ جلتا ہے
سال 2025 میں جب فرسٹ ایئر کے داخلے جاری تھے، ایسوسی ایشن کی جانب سے پہلے 30 مستحق طلبہ کی فیس ادا کی گئی۔ یہ کام ایک ایسے مخفی محسن کی مدد سے انجام پایا جنہوں نے شہرت یا تشہیر کی خواہش کے بغیر صرف نیتِ خیر اور احساسِ ذمہ داری سے یہ فریضہ انجام دیا۔ایسے ''گمنام نیک دل'' افراد ہی اصل سرمایہ ہیں کسی بھی معاشرے کے، وہ جن کے نام نہیں، مگر مقام سب جانتے ہیں۔سال 2025 میں ایسوسی ایشن نے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی۔ اس نیکی کے پیچھے نہ کوئی اشتہار تھا، نہ تصویری جھلکیاں، بلکہ صرف خلوص، خاموشی، اور نیت کا اجالا تھا۔ یہی وہ روشنی ہے جو نسلوں کو روشن کرتی ہے۔
سالانہ ڈنر ، زندہ یادیں اورتجدیدتعلق
اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا سالانہ ڈنر ایسی ہی یادوں، جذبوں، اور نئے عزم کے ساتھ منعقد ہوتا ہے جوسابقہ طالب علموں کی ملاقاتوں کا ذریعہ بنتا ہے، بلکہ ادارے اور اس کی روایت سے جڑنے کا احیاء بھی کرتا ہے۔ ان تقریبات میں سینکڑوں ممبران شریک ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے کردار بھی شامل ہوتے ہیں جن کی موجودگی خود ایک پیغام، ایک حوصلہ، اور ایک ترغیب ہوتی ہے۔سالانہ ڈنر میں شریک گوہر نایاب خود اپنی پہچان سے بڑھ کر کسی نام کے محتاج نہیں۔ان ہی شخصیات میں سے سلمان غنی ایک درخشندہ نام ہے۔
ایک تابندہ نام،سلمان غنی
نامور صحافی، سینئر تجزیہ نگارسلمان غنی( ستارہ امتیاز) ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ شہرت کے شور میں بھی اوکاڑہ کالج کی محبت میں زندہ ہیں۔ملک کے بڑے ادارے انہیں مدعو کرتے ہیں، وہ قومی اور بین الاقوامی سطح کے مکالموں میں شریک ہوتے ہیں مگر جب اوکاڑہ کالج کا نام آتا ہے تو سب کچھ ایک طرف وہ نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے ہوتے ہیں۔ان کا طرزِ عمل، ان کی وقت کی پابندی، اور ان کا ادارے سے عشق نوجوانوں کے لیے صرف باتیں نہیں، عملی سبق ہیں۔ وہ اس ادارے کا وہ ہیرا ہیں جس پر ہم سب بجا طور پر فخر کرتے ہیں۔ان کی موجودگی، ان کی گفتگو، اور ان کا طرزِ عمل طلبہ کے لیے صرف ایک موٹیویشن نہیں بلکہ ایک خواب کو حقیقت میں بدلنے کی ترغیب ہے۔ وہ اس ادارے کے ان سابق طالب علموں میں سے ہیں جن پر نہ صرف کالج بلکہ پورا اوکاڑہ فخر کرتا ہے۔
اولمپیئن سے عالمی سیاست تک ایک قابل فخرنام ، مظہر ساہی
سابق اولمپیئن مظہر ساہی ایسوسی ایشن کے سرمائے میں گوہرِ نایاب کی صورت شامل ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان کی نمائندگی بین الاقوامی اولمپکس میں کی اور بعد ازاں امریکہ جیسے ملک میں صدر باراک اوباما اور ہیلری کلنٹن جیسے عالمی رہنماؤں کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں فعال کردار ادا کیا۔مظہر ساہی نہ صرف کھیل کے میدان کے سپاہی ہیں، بلکہ سیاسی حکمت، سفارتی بصیرت، اور عالمی شعور رکھنے والے ایسے رہنما بھی ہیں جو اوکاڑہ سے واشنگٹن تک کا سفر عزت، وقار، اور خدمت کے جذبے سے طے کر چکے ہیں۔آج بھی وہ اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا فعال حصہ ہیں، اور نوجوان نسل کے لیے یہ ایک قابلِ رشک بات ہے کہ ان کے ساتھ ایک ایسے کردار کا تعلق جڑا ہے جس نے عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کی اور پھر اپنے علمی ادارے کو نہ بھلایا۔
موجودہ پرنسپل، قیادت میں توازن اور وژن
ایسوسی ایشن کی فعالیت اور اس کے ساتھ ادارے کی ہم آہنگی کا کریڈٹ موجودہ پرنسپل پروفیسر علی حیدر ڈوگر کو بھی دیا جانا چاہیے۔ وہ نہ صرف انتظامی امور کو سنبھالنے والے قابل منتظم ہیں بلکہ ایک وژنری لیڈر بھی ہیں، جنہوں نے المنائی کی اہمیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کا حصہ بن کر اسے فروغ دیا۔ان کی سرپرستی میں اساتذہ، طلبہ اور سابق طلبہ کے درمیان ایک خوشگوار رشتہ استوار ہو چکا ہے، جو کسی بھی تعلیمی ادارے کی ترقی کا بنیادی عنصر ہوتا ہے۔اساتذہ کی فکری رہنمائی، طلبہ کی فلاح اور ادارے کی ترقی یہ تین ستون پروفیسر علی حیدر ڈوگر کی قیادت میں ایک متوازن نظام میں ڈھل چکے ہیں۔
سیاست اور سماج، ایک مثبت اشتراک
اوکاڑہ کے سیاسی و سماجی نمائندے بھی اس تعلیمی مشن کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایم این اے ریاض الحق جج، چوہدری فیاض ظفر، اور ایم پی اے میاں محمد منیر جیسے بااثر افراد نے نہ صرف اظہارِ تحسین کیا بلکہ عملی طور پر تعاون بھی فراہم کیا ہے۔ ان کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ اگر نیت خالص ہو تو سیاست اور تعلیم ایک دوسرے کے لیے سہارا بن سکتے ہیں۔جب سیاست تعلیم کے شانہ بشانہ چلتی ہے، تو تعلیمی ادارے صرف عمارتیں نہیں رہتے، وہ تبدیلی کے مراکز بن جاتے ہیں۔
ملک کے دیگر ادارے اور ایک تقابلی روشنی
لاہور کے بڑے تعلیمی ادارے جیسے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی، ایف سی کالج، اور اسلامیہ کالج میں المنائی ایسوسی ایشنز کی کامیابیاں ہمارے لیے روشن مثالیں ہیں۔ مگر یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ اوکاڑہ کالج بھی اب ان اداروں کی صف میں کھڑا ہو چکا ہے، بلکہ کئی لحاظ سے ان سے آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔
ہم سب کا سفر، ہم سب کی ذمہ داری
اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن صرف ایک تنظیم نہیں یہ ماضی، حال اور مستقبل کا ربط ہے۔ یہ وہ پُل ہے جو نسلوں کو جوڑتا ہے، خوابوں کو حقیقت میں ڈھالتا ہے، اور وفا کو ذمہ داری میں بدلتا ہے۔یہ وہ چراغ ہے جس سے ہزاروں چراغ جلیں گے۔بس شرط صرف اتنی ہے کہ جذبہ زندہ ہو، دل مخلص ہو، اور وابستگی قائم رہے۔ یہ ایسوسی ایشن، یہ ادارہ، اور ان سے وابستہ ہر شخص ہماری اجتماعی شناخت کا فخر ہے۔آئیں ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ ہم اپنے ادارے، اپنی روایت، اور اپنے فرض سے نہ صرف جڑیں رہیں گے بلکہ ان کی آبیاری بھی کریں گے۔ کیونکہ اصل ترقی صرف ڈگریوں میں نہیں، بلکہ اس احساس میں ہے کہ ہم کس مقام سے اٹھے اور اسے کیا لوٹا سکے۔ اصل کامیابی صرف آگے بڑھنے میں نہیں، بلکہ وہاں لوٹنے میں ہے جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا۔
سنگ میل کی طرف بڑھتا سفر
اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن کا ہر قدم، ہر سرگرمی، ہر تقریب اپنے مقاصد میں علم کی شمع کو جلائے رکھنا اور اسے پھیلانے کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ صرف سابق طلبہ کا نیٹ ورک نہیں، بلکہ ایک نظریہ ہے جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔ اس میں محبت ہے، خدمت ہے، فخر ہے، اور سب سے بڑھ کر اپنی شناخت سے جڑے رہنے کا شعور ہے۔یہ ادارہ، یہ ایسوسی ایشن، اور یہ افراد ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آئیں، ہم سب مل کر اس مشن کا حصہ بنیں۔ کیونکہ اصل کامیابی یہی ہے کہ''جس مٹی سے ہم اُٹھے، اُسی کے لیے کچھ لوٹا سکیں۔''
ایک زندہ روایت
اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن ایک ایسا چراغ ہے جس سے ہزاروں چراغ جل سکتے ہیں۔ اوکاڑہ کالج، اولڈ باریئنز ایسوسی ایشن، اور ان سے وابستہ کردار یہ سب ایک زندہ، متحرک اور تابندہ روایت کا تسلسل ہیں اور ہم سب اس سلسلے کے امین ہیں۔
تبصرہ لکھیے