کسی کا ناراض ہونا ایک نارمل چیز ہے ، بعض لوگ زندگی میں ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ناراض ہونا برداشت نہیں ہوتا ۔ بلکہ بعض لوگوں سے تو کوئی بھی ناراض ہو ، ان کے مشکل صورتحال بن جاتی ہے ۔ آئیے اس کے اسباب کو دیکھتے ہیں اور پھر اس کے علاج پر بات کرتے ہیں ۔
ایک وجہ تو وہی بچپن کی کہانی ہے کہ جہاں آپ کو کسی سے ناراض ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ہوتی ، ناراض ہونا سکھایا نہیں گیا ہوتا ، اس سفر پر گامزن ہی نہیں ہوئے ہوتے ، تو اب بڑے ہو کر وہی پیٹرن اور وہی انداز کام کرتا ہے ۔ اور اسی انداز میں آپ ری ایکٹ کرتے ہیں کہ جیسے آپ بچپن میں کرتے تھے ، ناراضگی سے لگتا ہے کہ سب کچھ ٹوٹ جائے گا ، سب بکھر جائے گا ، کچھ نہیں رہے گا ۔ کچھ بڑا مسئلہ ہو گا ۔ لہذا سب کو راضی رکھو ۔ اب ہر کسی کا ہر وقت راضی رہنا ممکن نہیں ہوتا ، یہ فطرت کے خلاف ہے ۔
تو ایسے میں سب کو راضی رکھنے کے لیے ابنارمل حرکتیں کرنا پڑتی ہیں ، اپنی عزت نفس مارنا پڑتی ہے ، دوسرے کی منتیں کرنا پڑتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب اپنی ذات پر ظلم ہوتا ہے ، اپنے اعتماد کا قتل ہوتا ہے ، اپنی حسن و جمال کو اگنور کرنا ہوتا ہے ۔ اس کی ایک وجہ وہ گلٹ ہے ، جس میں آپ اپنی کسی غلطی کی وجہ سے ، اپنی کسی زیادتی کی وجہ سے جاتے رہے ہیں ، گلٹ میں جینے سے گلٹ اور شرمندگی کو زندگی ملتی ہے ۔ شرمندگی کو جتنا زیادہ زندگی ملتی ہے ، عزت نفس پر اسی قدر موت طاری ہوتی ہے ۔
اسی لیے اسلام ظلم و زیادتی پر توبہ کی تلقین کرتا ہے ۔ اور پھر اس گناہ کی شرمندگی سے ہمیشہ کے لیے نجات دلاتا ہے۔ تاکہ انسان بھرپور انداز میں زندہ رہے ۔ مخلوق بڑی کمزور چیز ہے ، اس لیے اگر آپ سے کوئی ظلم ہو جائے تو مظلوم سے معافی مانگنے کے بعد اس کے سامنے جھکے رہنے کی تعلیم نہیں دی گئی ۔ ہاں آپ احسان کریں ، اپنی غلطی کی سوری کریں اور اگلے بندے کو راضی کریں ۔ مظلوم کو راضی کرنے میں نفس کو جو تکلیف ہوگی ، اصل میں وہی ظلم کا کفارہ ہے ۔ مگر اس کی ایک حد ہے ۔
ہوتا یہ ہے کہ جب آپ مسلسل گلٹ میں رہتے ہیں تو اپنی ذات کو اگنور کرنا ، اپنی عزت نفس کا تحفظ کرنا ناممکن ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اور پھر جب خدا کے سوا اپنی شرمندگی اور گلٹ کے احساس کو ہم انسانوں کے سامنے ظاہر کرتے رہتے ہیں تو دوسرے لوگ ہمیں ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں کہ جیسا ہم خود اپنے آپ کو سمجھتے ہیں ، وہ ہمارے بارے میں ویسے ہی احساسات رکھنے لگتے ہیں کہ جیسے ہم خود اپنے بارے میں رکھتے ہیں ۔ یوں اپنی عزت خود نہ محسوس کرنے والا انسان ، دوسروں سے عزت پانے سے محروم رہتا ہے ۔
اب جو اپنے مقام و مرتبے کو خود نہیں سمجھتا ، ایک لیول ایسا آتا ہے کہ جب وہ دوسرے لوگوں کے خود پر ظلم کو بھی محسوس نہیں کرتا ، اسے لوگوں سے ناراض ہونا نہیں آتا ۔ لوگ اس سے ناراض ہوتے ہیں ، مگر وہ کسی سے ناراض نہیں ہو سکتا ۔ ناراض ہونے کے لیے شرمندگی کے احساس سے نجات ، اور عزت نفس کا وجود بنیادی شرط ہے ۔ اب کوئی سوال کرے کہ یار یہ کون سا بڑا مسئلہ ہے ؟ مختلف طبعیتیں ہوتی ہیں ، کوئی کیسا تو کوئی کیسا تو میرا ماننا ہے کہ یہ بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ یہ خدا کی بنائی فطرت کے تحفظ کا مسئلہ ہے ۔ جو ناراض نہیں ہوتا ۔ وہ دوسروں کی ناراضگی کے ڈپریشن میں مبتلا رہتا ہے ، وہ اپنی عزت نفس کے کہیں گم ہو جانے کے ڈپریشن میں رہتا ہے ۔ یہ ڈپریشن انسان کو خدا سے بھی دور کر سکتا ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائیوں سے محروم بھی !
یار غلطیاں تو سب ہی کرتے ہیں ، تو آخر دوسرے مجھ سے سوری کیوں نہیں کرتے ؟ کیا میں ہی ایسا بدنصیب ہوں کہ جس کی غلطیاں بہت بھیانک ہوتی ہیں ، اور جسے سوری سوری کرنا ہوتا ہے ؟ یہ سوال ایسے انسان کی زندگی میں اذیت کے دریا بہاتا ہے ۔ مجھے ہی آخر دوسروں کے چہرے پڑھنے ہوتے ہیں ، دوسروں کی نگاہیں جھانکنی ہوتی ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں ؟
ایسا نہیں ہے کہ دوسرے ظالم ہیں ، مسئلہ ایسے بندے کا اپنا یہ ہے کہ اسے بس خود کو یہ احساس دلانا ہے کہ وہ بھی ویسا ہی اسپیشل ہے کہ جیسے دوسرے ، وہ بھی ویسا ہی معزز ہے کہ جیسے باقی افراد ہیں ۔ اسے اس بات پر یقین رکھنا ہے کہ اللہ اس سے محبت کرتا ہے ، اگر اس سے زندگی میں کوئی گناہ ہوا اور اس نے معافی مانگ لی. تو یہ خدا تعالیٰ کا لکھا تھا ، جو ہو کر رہنا تھا اور ہو کر رہا ۔ معافی مانگنے ، توبہ کرنے کے بعد اسے کسی صورت نہ خود کسی شرمندگی کے احساس میں ڈوبنا ہے اور نہ کسی اور کو اجازت دینی ہے کہ وہ اسے شرمندہ کر پائے ۔
خود سے پیار کریں ، آپکی دنیا آپ سے محبت کرے گی ، خود کی عزت کریں ، سب عزت دیں گے اور اگر خود کو شرمندہ رکھیں گے تو دنیا بہت درد دے گی ۔ یہی اس دنیا کی حقیقت ہے ، اس لیے خدا سے اچھا گمان رکھیں بے شک وہ بے حد مہربان اور بے حد رحیم و کریم ہے !
تبصرہ لکھیے