پاکستان کے کبھی سب سے بااثر صنعت کار سمجھے جانے والے ملک ریاض کا زوال اتنا اچانک اور شدید تھا کہ وہ خود اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے کہ اب اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ چند ہی ہفتوں میں، بحریہ ٹاؤن جو کبھی معیشت کا ستون اور نجی ترقی کی علامت مانا جاتا تھا ، جہاں رہائش ایک اسٹیٹس سمبل تھا ۔
ایک وارننگ کی کہانی بن گیا۔ محض تین ماہ پہلے تک یہ ایک مکمل دنیا تھی، جہاں رہائش کے ساتھ اپنی بجلی اور سکیورٹی کا نظام موجود تھا۔ آج اس کا بانی جلاوطن ہے، بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں، اور برسوں میں بنائی گئی میراث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ حکام اسے برسوں سے زیرِ التواء احتساب کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، الزامات میں غیر قانونی زمینوں کا حصول، منی لانڈرنگ، اور عدالتی فیصلوں سے انحراف شامل ہے۔ بظاہر یہ قانون کی بالادستی کی فتح لگتی ہے، مگر اس داستان کے پس پردہ تضادات پوشیدہ ہیں۔
ملک ریاض کا کاروباری ماڈل سیدھا مگر نہایت حسابی تھا: پاکستان میں زمین محض سرمایہ نہیں بلکہ طاقت کا کھیل ہے اور اس کھیل کا سب سے بڑا کھلاڑی فوج ہے۔ ریاض نے بحریہ ٹاؤن کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر ریٹائرڈ فوجی افسران کو شامل کیا۔ کمپنی کے اہم انتظامی اور ترقیاتی عہدے گویا عسکری اداروں کے سابق افسروں کا کلب تھے مارکیٹنگ میں جنرلز، منصوبہ بندی میں کرنلز، اور اس فہرست میں سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز بھی شامل تھے جنہیں وہ شاہانہ تنخواہوں اور مراعات کے ساتھ ادارے سے وابستہ رکھتے تھے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں زمین کے ریکارڈ دھندلے ہوں اور قانون کا اطلاق پسند و ناپسند پر ہو، وہاں فوجی و عدالتی تعلقات حفاظتی ڈھال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ریاض نے اس ڈھال کو اپنی کمپنی کے ڈھانچے میں اس طرح سمو دیا کہ بحریہ ٹاؤن پر ہاتھ ڈالنا، درجنوں بااثر ریٹائرڈ جرنیلوں اور سابق ججوں کے بعد از ریٹائرمنٹ کیریئر کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔یہ فارمولا تین دہائیوں تک بے عیب چلتا رہا۔ ریاض کھلے عام افسران اور ججز کو مراعات دینے کا اعتراف کرتے، گویا یقین تھا کہ سب کو اس بندوبست سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔ پھر یہ بندوبست کیوں ٹوٹا؟
وقت کے ساتھ بحریہ ٹاؤن نے نہ صرف ترقی کی بلکہ اپنے حریفوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ کراچی میں بحریہ کا ایک کنال کا رہائشی پلاٹ پینتالیس لاکھ میں دستیاب تھا جبکہ فوج کے زیرِ انتظام ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں یہی پلاٹ ڈھائی کروڑ سے شروع ہوتا ہے۔ لاہور میں بحریہ دو برس میں قبضہ دے دیتا، جب کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں خریدار کو ایک دہائی انتظار کرنا پڑتا۔ درمیانے طبقے کے لیے یہ کسی نجات دہندہ سے کم نہ تھا۔مگر یہی کامیابی خاموش معاہدے کی خلاف ورزی بن گئی۔ فوج کا دائرۂ اثر اشرافیہ کی رہائش تک محدود تھا اور بحریہ ٹاؤن کا ہدف درمیانہ طبقہ۔ لیکن ریاض نے اعلیٰ متوسط طبقے اور متمول خریداروں کو بھی ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی سے کھینچنا شروع کر دیا۔ یہ براہِ راست فوجی اجارہ داری کو چیلنج کرنا تھا۔
ملک ریاض کے خلاف موجود ثبوت نئے نہیں تھے ۔ عدالتی ریکارڈ اور مالیاتی شواہد برسوں سے موجود تھے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کارروائی اب کیوں ہوئی؟ جواب سادہ ہے: پاکستان میں کامیابی کی بھی ایک حد ہے، خاص طور پر جب وہ کسی ادارہ جاتی مفاد سے ٹکرا جائے۔ریاض کی سب سے بڑی غلطی وفاداری کا غلط مصرف تھا۔ وہ ریٹائرڈ افسران اور سابق ججز جن پر وہ بھروسہ کرتے تھے، دراصل کبھی اپنے اداروں سے الگ نہیں ہوئے تھے۔ وقت آنے پر وہ ادارے کے ساتھ کھڑے ہوئے، نہ کہ اس شخص کے ساتھ جس نے انہیں روزگار دیا تھا۔ جو اثر و رسوخ کبھی بحریہ ٹاؤن کو بچانے کے لیے استعمال ہوتا تھا، وہی اسے گرانے کے لیے بروئے کار لایا گیا۔
پاکستان کے کاروباری طبقے کے لیے یہ ایک تلخ سبق ہے، اگر ملک ریاض جیسا بااثر اور سرمایہ دار شخص راتوں رات زمین بوس ہو سکتا ہے تو طاقت کے قریب رہنا بھی بقا کی ضمانت نہیں۔ یہ تحفظ ہمیشہ مشروط ہوتا ہے، اور ادارے کو پیچھے چھوڑنے کی قیمت مکمل صفحۂ ہستی سے مٹائے جانے کی صورت میں وصول کی جاتی ہے۔آج ملک ریاض دبئی یا مالٹا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ شخص جس نے صفر سے شہر بسائے، پردیس سے اپنے ہی تعمیر کردہ شہروں کو بکھرتے دیکھ رہا ہے۔
ملک ریاض کی کہانی محض ایک کاروباری سلطنت کے زوال کی نہیں بلکہ پاکستان میں طاقت کے ڈھانچے کی علامت ہے۔ یہ اس سچائی کو بے نقاب کرتی ہے کہ نجی محنت اور خوابوں کی پرواز وہاں محدود ہو جاتی ہے جہاں اصل اختیار کسی اور کے ہاتھ میں ہو۔ طاقت کے ایوانوں سے شراکت یقیناً دولت اور اثر دیتی ہے، مگر صرف ان سرحدوں تک جو سختی سے نگرانی میں ہوں۔ ان سرحدوں کو پار کریں تو محافظ شکاری بن جاتے ہیں اور تاریخ کا فیصلہ ہمیشہ شکاری کے حق میں لکھا جاتا ہے، جب تک کہ کوئی نظام طاقت کے بجائے اصول کو محافظ نہ بنا دے۔
طاقت کی دہلیز پر بچھا قالین سرخ ضرور ہوتا ہے، مگر اس کا رنگ قربانی کے خون سے گہرا ہوتا ہے۔ جو اس پر چلتا ہے، وہ یا تو تخت پر بیٹھتا ہے یا تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا ہے اور اکثر اوقات، دونوں راستے ایک ہی انجام کی طرف لے جاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے