ہوم << آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ - تہامی نور

آزادی کے 78 سال بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟ - تہامی نور

14 اگست 1947 ایک ایسا دن ہے جب پاکستان نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی کی فضا میں سانس لی۔ یہ دن ہمیں صرف آزادی کی قدر ہی نہیں سکھاتا بلکہ اس بات کی بھی یاد دہانی کرواتا ہے کہ ہم نے اس ملک کو سنوارنے اور بہتر بنانے کا عہد کیا تھا ۔

مگر آج ، یوم آزادی کے 78 سال بعد ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ ہم اس ملک کو آگے لے جانے کے لیے کس حد تک تیار ہیں ؟ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل ۔ کیا وہ صرف کتابی تعلیم تک محدود ہے یا زندگی کی حقیقی مہارتوں میں بھی مہارت رکھتی ہے؟

آج کی نوجوان نسل شدید تعلیمی دباؤ کا شکار ہے ۔ اسکول ، کوچنگ سینٹرز ، آن لائن کلاسز اور امتحانات کے گرد گھومتی ہوئی زندگی نے انہیں عملی زندگی کی مہارتوں سے دور کر دیا ہے ۔ ان کی ساری توانائی گریڈز ، جی پی اے اور اسائنمنٹس پر مرکوز ہے ، اور زندگی گزارنے کے بنیادی اصول ان کے لیے اجنبی بن چکے ہیں ۔ مثلاً اگر کوئی نلکا خراب ہو جائے یا پنکھا بند ہو جائے تو فوراً پلمبر یا الیکٹریشن کو فون کیا جاتا ہے ۔ نئی نسل کا ہاتھ سے کوئی چھوٹا سا کام کرنا یا کسی مسئلے کا خود حل نکالنا ایک "غیر ضروری" مشقت سمجھا جاتا ہے ۔ یہ روش نہ صرف خود انحصاری کو ختم کرتی ہے بلکہ ذہنی پختگی کو بھی روکتی ہے ۔

آج کا نوجوان ایک دن اکیلا نہیں گزار سکتا ۔ اگر انٹرنیٹ بند ہو جائے ، موبائل خراب ہو جائے یا کوئی چھوٹا مسئلہ بھی درپیش ہو ، تو وہ مایوسی اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وجہ ؟ انہیں بچپن سے مسائل کا سامنا کرنے کی تربیت ہی نہیں دی گئی ۔دیگر ممالک کی تربیتی صرف تعلیم نہیں ، کردار سازی کی مثالیں بھی ہیں۔ سب سے پہلے ، جاپان میں بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی صفائی ، وقت کی پابندی ، خاموشی سے سننے اور دوسروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول میں بچے نہ صرف تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ ہر

دن اپنی کلاسز ، راہداریاں اور یہاں تک کہ اسکول کے واش رومز بھی خود صاف کرتے ہیں۔ جاپانی کلچر میں اجتماعی ذمہ داریوں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی نوجوان نہ صرف پڑھائی میں اچھے ہوتے ہیں بلکہ اخلاقی طور پر بھی مضبوط کردار کے مالک ہوتے ہیں ۔دوسرا ، فن لینڈ میں بچوں کو سادہ اور فطری ماحول میں پرورش دی جاتی ہے۔ وہاں اسکول جانے کی عمر 7 سال سے شروع ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے بچوں کو آزادی سے سوچنے، کھیلنے اور سوال کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

علاوہ ازیں ، جرمنی میں بچے بچپن سے ہی آزاد فیصلے لینے کی تربیت حاصل کرتے ہیں ۔ ان کے اسکولوں میں بچوں کو مختلف پیشہ ورانہ مہارتیں سکھائی جاتی ہیں جیسے لکڑی کا کام ، دھات کاری یا سلائی کڑھائی تاکہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم کی طرف نہ بھی جائیں تو خود کفیل بن سکیں ۔ جرمن تعلیمی نظام تجربات کو تھیوری سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ اسی طرح سنگا پور میں تعلیم اور تربیت کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ بچوں کو اسکول میں اخلاقیات ، باہمی احترام اور خود نظم وضبط سکھایا جاتا ہے ۔ وہاں اتحانات اور نتائج اہم ضرور ہیں ، لیکن ان کے ساتھ ساتھ بچوں کی شخصیت سازی پر بھی بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔

یوم آزادی کا اصل مقصد صرف جشن منانا نہیں بلکہ خود احتسابی بھی ہے۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو صرف تعلیمی کامیابیوں تک محدود نہیں رکھنا ، بلکہ انہیں زندگی کی بنیادی مہارتیں بھی سکھانی ہیں جیسے :

. خود پر انحصار کرنا
. مشکلات کا سامنا کرنا
. صفائی اور نظم وضبط اپنانا
. وقت کی پابندی
. دوسروں کے ساتھ مل جل کر کام کرنا

اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان واقعی ترقی کرے ، تو ہمیں نوجوانوں کو صرف ڈاکٹر، انجینئر یا آئی ٹی ماہر نہیں بنانا ، بلکہ ایک باعمل ، با اخلاق اور خود انحصار شہری بنانا ہوگا۔ اس یوم آزادی پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کتابی علم کے ساتھ ساتھ زندگی کا علم بھی دیں گے، تاکہ وہ خود پر اور اپنی قوم پر فخر کر سکیں ۔