قوموں کی تاریخ میں بعض دن محض کیلنڈر کی تاریخیں نہیں ہوتے، بلکہ وہ اپنے دامن میں وہ حقائق، واقعات اور زخم لیے ہوتے ہیں جنہیں بھول جانا ممکن نہیں ہوتا۔ 6 اگست 1990 بھی ایسا ہی ایک دن ہے، جب پاکستان کی منتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت، صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں برخاست کر دی گئی۔
یہ محض ایک سیاسی اقدام نہ تھا بلکہ جمہوریت کی بنیادوں پر ایک سنگین وار تھا ایک ایسا وارجس کے نتائج نے پاکستان کی سیاست کو آئندہ کئی دہائیوں تک عدم استحکام، سازشوں اور غیر جمہوری مداخلت کی دلدل میں دھکیل دیا۔ 6 اگست 1990 کا دن پاکستانی جمہوری تاریخ میں ایک سنگین موڑ تھاجب منتخب حکومت کو سازش کے تحت برطرف کیا گیا۔ اس دن کو یاد رکھنا اور اس پر بحث جاری رکھنا جمہوری تسلسل کے لیے نہایت ضروری ہے۔یہ دن اہم تاریخی اور سیاسی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔
عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو ان کے صرف 18 ماہ کے اقتدار میں ہر ممکن طریقے سے غیر مؤثر بنانے کی کوشش کی گئی۔ ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ہو یا ہارس ٹریڈنگ کی بدترین مثال ''چھانگا مانگا'' یہ سب واقعات کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے باعثِ شرم ہیں۔ چھانگا مانگا کا وہ جنگل، جہاں عوامی نمائندوں کو اغواء کی مانند قید رکھا گیا، آج بھی پاکستانی جمہوریت کی تاریخ پر ایک سیاہ دھبہ ہے۔پاکستان کی تاریخ میں 6 اگست 1990 کا دن ایک سیاہ باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ صدر غلام اسحاق خان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت کو برطرف کرتے ہوئے بدعنوانی، طرز حکمرانی کی خرابی، اور بدامنی کو جواز بنایا۔
لیکن درپردہ کہانی ایک ایسی اسٹیبلشمنٹ کی تھی جو کبھی بھی ایک بااختیار عوامی قیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھی۔غلام اسحاق خان، جو ضیاء الحق کے سانحہ کے بعد صدر کے منصب پر فائز ہوئے ایک طاقتور بیوروکریٹ تھے جنہوں نے 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو مشروط طور پر وزیر اعظم تسلیم کیا۔ یہ شرط درحقیقت محدود اختیارات، متنازعہ گورنرز، اور اہم وزارتوں میں مداخلت کا نام تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب ان شرائط کو چیلنج کرنا شروع کیا تو ان کے خلاف ایک منظم مہم کا آغاز ہوا۔6 اگست 1990کو صدر غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل 58(2)(b) کے تحت اسمبلی تحلیل کر دی۔
اسی روزانہوں نے قوم سے خطاب میں کہا“حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ معاشی بدانتظامی، کرپشن، اور بدامنی میں اضافہ ہوا۔”(خطاب: غلام اسحاق خان، 6 اگست 1990)لیکن کیا واقعی یہی وجوہات تھیں؟ یا پس پردہ مقاصد کچھ اور تھے؟ بے نظیر بھٹو نے اس اقدام کو“جمہوریت پر شب خون”قرار دیتے ہوئے کہا“یہ فیصلہ کسی صدر کا نہیں بلکہ غیرجمہوری قوتوں کا فیصلہ ہے جو عوامی فیصلے سے خوفزدہ ہیں۔”(بیان: بے نظیر بھٹو، 7 اگست 1990، اسلام آباد پریس کانفرنس)
پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کر کے جو راستہ کھولا گیا، اس پر پہلا مسافر نواز شریف بنے۔ ایک کاروباری پس منظر رکھنے والا خاندان پنجاب کی سیاست میں جبراً اُبھارا گیا، جسے اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی حاصل تھی۔ نواز شریف کی سیاست درحقیقت مخالفت برائے مخالفت سے عبارت تھی وہ صرف حزبِ اختلاف نہیں بنے بلکہ کردار کشی کی مہم میں ہر حد پار کر گئے۔ ان کی قیادت کا ظہور جمہوریت کو کمزور کر کے ہوااور وہی لیڈر بعد میں خود مارشل لا کا شکار بنے، مگر تب تک جمہوریت کا بہت کچھ لٹ چکا تھا۔1990 کے اس سیاسی قتل کے بعدپاکستان کی سیاسی تاریخ سازش در سازش کا شکار رہی۔
چاہے وہ 1993 کی صدر اور وزیراعظم کے مابین کشمکش ہویا 1996 میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کا خاتمہ یا پھر 1999 میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت ہر موڑ پر عوامی رائے اور منتخب قیادت کو روندکر جمہوریت کے خلاف خفیہ بندوبست کیے گئے۔اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد نواز شریف تھے، جنہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ 1990 کے عام انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) نے کامیابی حاصل کی اور نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ بعد ازاں 1993 میں، اسی نواز شریف اور غلام اسحاق خان کے درمیان تنازع پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں سپہ سالار جنرل وحید کاکڑ کی ''کاکڑ فارمولا'' مداخلت کے بعد دونوں کو مستعفی ہونا پڑا۔
یہ واقعات اس بات کا واضح اشارہ تھے کہ پاکستان میں اقتدار کا اصل سرچشمہ عوام نہیں بلکہ پس پردہ قوتیں تھیں۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے ایک اور جمہوری حکومت کا تختہ الٹا، جس کے نتیجے میں ایک بار پھر جمہوریت کو پامال کیا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ بے نظیر بھٹو کی 6 اگست 1990 کی برطرفی کے بعدجو الزامات عائدکیے گئے بدعنوانی، گورننس کی خرابی، اور سیکیورٹی کے مسائل وہ ہر بار حکومت کی تبد یلی کے لیے اسی طرح استعمال ہوئے۔2006 میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ''میثاقِ جمہوریت'' پر دستخط کیے، جس کا مقصد یہی تھا کہ آئندہ کوئی غیرجمہوری قوت کسی منتخب حکومت کو ختم نہ کر سکے۔
مگر تاریخ نے ایک اور پلٹا کھایا، اور 2017 میں نواز شریف کو پانامہ لیکس کے بعد اقامہ جیسے معمولی تکنیکی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا گیا۔ ایک بار پھر 58(2)(b) کی روح کو عدالت کے ذریعے زندہ کیا گیا۔2006 کا میثاقِ جمہوریت امید کی ایک کرن تھا۔ مگر 2008 کے بعد ایک بار پھر سازشی عناصر نے میمو گیٹ جیسے معاملات کے ذریعے سیاسی عدم استحکام کو ہوا دی۔ نواز شریف، جنہیں کبھی اس کھیل کا سب سے بڑا فائدہ حاصل ہوا، خود بھی اس کا شکار بنے اور پھر ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگانے لگے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ نعرہ ماضی کے اپنے اعمال کا کفارہ تھا یا محض سیاسی ضرورت؟
6 اگست کا دن ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جمہوری تسلسل اور سیاسی استحکام محض تقاریر، احتجاج یا بیانات سے نہیں آتا، بلکہ اس کے لیے مسلسل جدوجہد، تاریخی شعور اور اجتماعی حافظے کی بیداری ضروری ہے۔ بدقسمتی سے آج 6 اگست پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں خاموش ہیں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی، جس کے ساتھ یہ سانحہ براہِ راست جُڑا ہوا ہے۔
یہ وہ دن ہے جس پر پارٹی کی تنظیموں کو اسٹڈی سرکلز، ریفرنسز، عوامی مکالمے اور تربیتی نشستوں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل یہ سمجھے کہ جمہوریت کوئی تحفہ نہیں، یہ ایک مسلسل مزاحمت، قربانی اور شعور کا نام ہے۔پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت مفاہمت کی سیاست کو بہتر سمجھتی ہے لیکن مفاہمت کا مطلب ماضی کو فراموش کرنا نہیں۔موجودہ نظام کو بہتر بنانے کی کوشش ضروری ہیں مگر یہ تب ہی ممکن ہے جب ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کیا جائے، ان سے سبق لیا جائے اور انہیں دہرانے سے گریز کیا جائے۔
ہماری تاریخ کے ان المیوں پر آج مکمل خاموشی ہے۔ نہ کہیں 6 اگست کی بازگشت ہے، نہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف سازشوں کا تذکرہ۔ ایک پوری نسل ان حقائق سے ناواقف ہے۔ ہمیں لازم ہے کہ ہم ان سچائیوں کو قلمبند کریں، تاکہ آنے والی نسل جان سکے کہ کس طرح جمہوریت کے نام پر بار بار جمہور کا خون کیا گیا۔6 اگست نہ صرف بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کا دن ہے، بلکہ یہ اس نظام کے چہرے پر ایک داغ ہے جو خود کو جمہوری کہتا ہے مگر درحقیقت اشرافیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کا آئینہ ہے۔
جمہوریت کے دشمن کبھی ختم نہیں ہوتے، ان کے چہرے اور طریقے بدلتے ہیں۔ 6 اگست کو بے نظیر حکومت کا خاتمہ محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ یہ تاریخ کی وہ صدا ہے جو ہمیں بار بار یاد دلاتی ہے کہ اقتدار عوام کا ہے، اور رہے گا بشرطیکہ ہم اسے فراموش نہ کریں۔
تبصرہ لکھیے