آج کی "تربیت" صرف محبت اور فطرت کا نام نہیں رہی، بلکہ یہ ایک منظم تجارتی منصوبہ بن چکی ہے۔ والدین کی بے چینی، خوف، اور عدم اعتماد کو مارکیٹ نے نفع کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ بچوں کی فطری نشوونما کو تربیت کے نام پر ضرورت سے زیادہ منصوبہ بندی، احساسِ جرم، اور جذباتی انحصار کا شکار بنا دیا گیا ہے۔
اب تربیت ایک سادہ تعلق نہیں رہی، بلکہ ہر لمحہ ایک "کارکردگی" بن چکا ہے، جسے ماں باپ مسلسل تولتے ہیں اور ہر بار خود کو کمزور پاتے ہیں۔ ماں کی آنکھوں میں کبھی جو فطری اعتماد ہوا کرتا تھا، آج وہ ایک مستقل سوالیہ نشان میں بدل چکا ہے۔ ماں اب اپنے دل سے یہ نہیں پوچھتی کہ"میرے بچے کو میری کیا ضرورت ہے؟"، بلکہ گوگل سے پوچھتی ہے کہ "بچے کو کیسے پروان چڑھایا جائے؟"۔ یہ دور مشوروں، تربیتی کورسز، اور ایپس کا دور ہے۔ ہر طرف solutions بکھرے ہیں، مگر ماں کے دل میں الجھن اور بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
یہی موضوع ہماری آج کی بحث کا مرکز ہے۔ عالمی Parenting Industry (بچوں کے کپڑے، کھلونے، کتابیں، کورسز، موبائل ایپس، تربیتی ورکشاپس) کی مالیت 325 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اور بعض تخمینوں کے مطابق یہ مارکیٹ 1.2 کھرب ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ صرف آن لائن پیرنٹنگ ایجوکیشن کی مارکیٹ 2024 میں 2.24 ارب ڈالر تھی، جو 2033 تک 5.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے۔ Parenting Apps کی مارکیٹ 2023 میں 542 ملین ڈالر تھی، اور 2030 تک یہ 905 ملین ڈالر ہو سکتی ہے۔
ان کے کچھ سیاہ اثرات:
67 فیصد والدین سوشل میڈیا سے تربیتی مشورے لیتے ہیں، جن میں سے 84 فیصد کو دوسروں کے "جج" کرنے کا احساس ہوتا ہے۔ 42 فیصد والدین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اکثر ذہنی طور پر نڈھال ہو جاتے ہیں، اور 75 فیصد کو بچوں کی تربیت میں ٹیکنالوجی کے منفی اثرات پر شدید تشویش ہے۔ ایک حالیہ امریکی سروے کے مطابق، والدین سال میں اوسطاً 156 بار خود کو ناکام والدین محسوس کرتے ہیں۔ 41 فیصد والدین تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اس قدر ذہنی دباؤ میں ہوتے ہیں کہ روزمرہ کے کاموں میں بھی دھیان نہیں دے پاتے۔
Helicopter Parenting یعنی ہر لمحہ بچے پر نظر رکھنا آج کی جدید ترین تربیتی اصطلاح ہے، مگر اس کے اثرات میں بچوں میں خود اعتمادی اور خود مختاری کی شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ماہرین نفسیات خبردار کرتے ہیں کہ تربیت کو "نفسیاتی مسئلہ" بنا دینے سے والدین میں عدم اعتماد اور بچوں میں غیر فطری دباؤ بڑھ رہا ہے۔ یہ کیسا دور آ گیا ہے کہ ماں کو اب "ماں" بننے کے لیے بھی کورسز، کتابیں، ایپلیکیشنز اور ورکشاپس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے؟ وہ اپنے اندر کے نور کو محسوس کرنے کے بجائے، ماہرین کے گائیڈ لائنز پر خود کو جانچتی ہے۔
آج کی ماں… شاید دنیا کی سب سے تھکی ہوئی ہستی ہے۔ وہ روایتی ماں بننے کے خوف میں مبتلا ہے اور جدید ماں بننے کی دوڑ میں ہانپ رہی ہے۔ مگر سچ یہ ہے کہ وہ خود اپنے ماں ہونے پر یقین کھو چکی ہے۔ اور یہی وہ خلا ہے جہاں سے ہر بےچینی، ہر الجھن، ہر عدم اطمینان جنم لیتا ہے۔ ہر طرف تربیت کے دعوے دار ہیں، ہر فون میں notifications آتی ہیں “Best way to raise a confident child” اور ماں خود کو مزید ناکام محسوس کرنے لگتی ہے۔ ہر مشورہ دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ: "تم کافی نہیں ہو"۔
اس پرچم کے نیچے ہر طرف products، theories، expert tips، online sessions، اور parenting hacks کا ہجوم ہے۔ ماں ایک گاہک ہے جتنی پریشان، اتنی ہی potential buyer۔ جتنی confused، اُتنے ہی solutions۔ حالانکہ تربیت ہمیشہ سادہ، فطری اور دعا سے جڑی ہوتی ہے۔ ایک ماں جو خاموشی سے بچے کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر کہتی ہے: "یا اللہ، اسے خیر دے"، وہ اس ماں سے کہیں زیادہ کامیاب ہے جو صرف techniques کے زور پر performance پر زور دے رہی ہو۔
ہمارے ہاں تربیت سے متعلق کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جیسے یہ کہ ہر بچہ کسی خاص strategy سے ہی سنورے گا، یا اگر آپ modern tools استعمال نہیں کر رہے تو آپ پیچھے رہ گئے ہیں۔ ہم نے ماں کو مشقّت کے ساتھ بھی ایک marketing gimmick میں بدل دیا ہے۔ اب وہ اپنے احساسات سے نہیں، بلکہ parenting apps کی checklist سے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ ماں اب ماں بننے سے پہلے validation چاہتی ہے “Am I doing it right?” اور social media اُسے ہر بار یہ بتاتا ہے: “You’re still not enough.”
یہ نظام ماں کی ممتا کو commercial anxiety میں بدل رہا ہے۔ ماں اپنے بچے کے رو لینے پر پریشان نہیں ہوتی، وہ اس بات پر پریشان ہوتی ہے کہ کیا دوسرے ماں باپ میرے طریقے کو accept کریں گے؟ وہ بچے کو comfort نہیں دیتی، وہ اسے ایک model child بنانے کی مشقت میں گھل رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے تربیت کو rocket science بنا دیا ہو۔ جیسے ہر ماں ایک lab technician ہے، اور ہر بچہ ایک "Ongoing project" بن چکا ہے. حالانکہ اصل سچ یہ ہے کہ تربیت صرف یہ مان لینے میں چھپی ہے: "یا اللہ، میں کوشش کر رہی ہوں، لیکن دلوں کا حال تو تو ہی جانتا ہے۔"
ہم نے تربیت کو ایک ایسا خوف بنا دیا ہے جس کا نہ سرا ہے نہ انت۔ nonstop comparison، guilt، اور correction کا بوجھ۔ ہم بچے کے ہر لمحے کو inspect کرتے ہیں، ہر بات پر check، ہر حرکت پر instruction۔ اور وہ لمحے جو کبھی صرف محبت کے لیے ہوتے تھے، وہ اب performance کا pressure بن چکے ہیں۔ بچے انسان ہیں، روبوٹ نہیں۔ وہ گریں گے، سیکھیں گے، وقت لیں گے۔ مگر ہم اُن کی تربیت social media کی رفتار پر کرنا چاہتے ہیں۔
آج کی ماں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ "میرے بچے کو کوئی تکلیف نہ ہو"۔ نہ چوٹ لگے، نہ آنسو آئیں، نہ کوئی "نہ" کہے، نہ مخالفت ہو۔ مگر اس سوچ سے ہم ایک نازک، نرگسیت زدہ، اور بوجھ سے بھاگنے والی نسل تیار کر رہے ہیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ تربیت کا مطلب ہے قربانی، کردار، اور اللہ سے تعلق ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ہماری تاریخ کی مائیں کیسی تھیں۔ امام شافعیؒ کی ماں، جو بیٹے کو علم کے لیے اکیلا سفر کرواتی ہیں۔ امام مالکؒ کی ماں، جو کہتی ہیں: "ایسے بیٹھنا جیسے ایک دن امت کو سنبھالنا ہے۔"
حضرت موسیٰؑ کی والدہ، جو بیٹے کو دریا میں ڈال دیتی ہیں اللہ کے یقین پر۔ حضرت علیؓ کی والدہ، جو حق گوئی اور غیرت سکھاتی ہیں، نہ کہ صرف حفاظت کا سبق۔ حضرت ہاجرہ، جو پانی کے لیے دوڑتی ہیں، اور اُن کی اس دوڑ کی برکت آج تک جاری ہے۔یہ مائیں نہ motivational speakers تھیں، نہ کسی جدید course سے جڑی ہوئی، بلکہ اللہ سے جڑی ہوئی، اخلاص سے لبریز اور امت کے خوابوں سے مالا مال تھیں۔ہماری الجھن یہ ہے کہ ہم اپنی تربیت کے اصول اُن قوموں سے سیکھنے لگے ہیں جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا ہے۔ ہم اُن کی لکھی گئی کتابوں کو مقدس مانتے ہیں جن کے مصنف نہ ایمان والے ہیں، نہ آخرت کے قائل، نہ حلال و حرام کے شعور کے حامل۔
یہ کیسا تضاد ہے کہ ہم قرآن سے کتراتے ہیں، مگر یورپی ماں کی لکھی کتابوں کو گلے لگا لیتے ہیں، کیونکہ وہ ہمیں یہ خوش فہمی دیتی ہیں کہ سب کچھ تمہارے کنٹرول میں ہے۔حالانکہ ایمان والے جانتے ہیں کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اور تربیت صرف techniques سے نہیں، تقویٰ سے پروان چڑھتی ہے۔ کیا جن قوموں نے gender confusion ، family breakdown، اور emotional isolation جیسے سانحات پیدا کیے، وہ ہمیں تربیت سکھائیں گے؟ ہم کیوں بھول گئے کہ ہماری پہلی ماں حضرت حوا تھیں، اور پہلا تربیتی نصاب قرآن تھا؟
یاد رکھیے:
جو بچہ کبھی گرا نہیں، وہ کھڑا ہونا نہیں سیکھتا۔ جو کبھی محروم نہیں ہوا، وہ شکر گزار نہیں بنتا۔ جو حق کے لیے نہ لڑا، وہ باطل کے آگے جھک جاتا ہے۔ہمیں اپنے بچوں کو stress سے نکالنا نہیں، stress کو handle کرنا سکھانا ہے۔ تکلیف سے بچانا نہیں، تکلیف میں اللہ سے جوڑنا ہے۔ comfort دینا نہیں، بلکہ character بنانا ہے۔اگر ماں اپنے رب سے جڑ جائے، قرآن کو روزمرہ بنالے، اور اپنی فطرت پر اعتماد کر لے، تو اُسے کسی speaker، کسی course، کسی checklist کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ ماں اگر روز صرف ایک آیت قرآن سے پڑھے اور سوچے: "آج میں اس آیت کو اپنی اولاد پر کیسے نافذ کروں؟" تو وہ کسی بھی ماہر سے زیادہ کامیاب ہے۔
قرآنی تربیت کے پانچ سادہ اصول:
1. محبت سے آغاز — جیسے اللہ نے خود کو رحمٰن کہا، ماں بھی ہر تربیت رحمت سے شروع کرے۔
2. آزادی کے ساتھ حدود — "لا تقربوا" یعنی بچے کو گھٹن نہ دو، لیکن حدود واضح ہوں۔
3. قصوں سے تعلیم — قرآن واقعات سے سکھاتا ہے، بچوں کو بھی کہانیوں سے سیکھنا آسان لگتا ہے۔
4. نرمی اور حکمت — حتیٰ کہ فرعون جیسے کے لیے بھی اللہ نے نرمی کا حکم دیا، تو بچوں کے لیے کیوں نہیں؟
5. خود عمل — جو بات خود نہ کی ہو، وہ اولاد کو سکھانے کا اثر نہیں رکھتی۔
آخر میں صرف اتنا کہ:
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
(اے ہمارے رب! ہمیں ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کے لیے امام بنا دے)
یہ صرف دعا نہیں، یہ ایک ماں کا خواب، ایک امت کا مستقبل، اور فطری تربیت کا پہلا قدم ہے۔
تبصرہ لکھیے