کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کسی بھی پاکستانی کے لیے جذبات کو قابو میں رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ اس جنت نظیر وادی کی خون میں نہاتی گلیاں اور گھر گھر اٹھتے شہدا کے جنازے آنکھوں کو اشکبار کر دیتے ہیں۔ بلاشبہ پچھلے ستر برس سے مقبوضہ کشمیر قربانیوں کی لازوال داستان بنا ہوا ہے اور کشمیری آج بھی قربانیوں کی داستان رقم کرنے میں مصروف ہیں اور ان کا جوش اور ولولہ اپنے نقطہ عروج کو پہنچ چکا ہے۔ تحریکِ آٓزادی کا کنٹرول اب نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارتی فوج کے مظالم سے کشمیر کی آواز اب دبنے کے بجائے بلند تر ہو گئی ہے اور بھارت کے لیے جبر کی بنیاد پر قبضہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ کشمیر کے پڑھے لکھے نوجوان بھارتی افواج کی بربریت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے سبز ہلالی پرچم فخر سے لہرا رہے ہیں۔ برہان وانی شہید بھی ایسا ہی ایک پڑھا لکھا کشمیری نوجوان تھا جسے بھارتی ظلم و بربریت نے ہتھیار اٹھانے پر مجبور کیا اور جس کی شہادت نے تحریکِ آزادی میں نئی روح پھونک دی۔
بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف بین الاقوامی میڈیا میں خفیف آوازیں اب شدت اختیار کر گئی ہیں، دوسری طرف خود بھارتی دارالحکومت سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں جنھیں دبانے پر خود مودی بھی قادر نہیں۔ دہلی کی جواہر لال نہرو یونی ورسٹی کی پروفیسر نیودیتا مینن بھی انھی آوازوں میں سے ہیں جنھوں نے کشمیر پر بھارتی قبضے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی مشہور مصنفہ اارون دھتی رائے نے بھی کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ بھارت سے اٹھنے والی یہ آوازیں بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے بھارت پر لگائے گئے الزامات کی تصدیق کر رہی ہیں۔ مشہور انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی شہر بنگلور میں کشمیر کی صورتحال پر اجلاس طلب کیا تو اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔
بھارت کا خیال تھا کہ ظلم و جبر کے نتیجے میں کشمیری زیادہ عرصے تک پاکستانی پرچم نہیں لہرا سکیں گے، رفتہ رفتہ پاکستانی پرچم وادی میں سر نگوں ہو جائے گا مگر یہ خوش فہمی حقیقت کا روپ دھارنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ حال یہ ہے کہ بھارتی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا کہہ چکے ہیں کہ بھارت کشمیر میں جنگ ہار رہا ہے۔ حالیہ تحریک نے بھارتی قبضے کو جڑوں سے ہلا دیا ہے۔ بوکھلاہٹ میں مودی نے بلوچستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے پاکستان پر انگلی اٹھائی مگر نادانستہ طور پر پاکستانی موقف کی حمایت کر دی اور دنیا کو بتا دیا کہ کلبھوشن یادیو اور اس جیسے کئی بھارتی ایجنٹ بلوچستان میں کس ایجنڈے کے تحت سرگرم ہیں۔مودی نے پاکستانی موقف کی نہ صرف تائید کی بلکہ کشمیر میں بھارت کی ناکامی کو مزید اجاگر کر دیا ہے۔ اب بھارت کا فیصلہ یہی ہے کہ پاکستان میں پراکسی وار کو تیز تر کیا جائے اور بلوچستان، کراچی میں کارروائیاں کر کے پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے اختیار کیے گئے موقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جائے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندو انتہاپسندوں نے پاکستان کا وجود دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ مودی اسی انتہاپسندی کے نمائندے ہیں. مودی کی قیادت میں بی جے پی کا طرزِ سیاست کھلم کھلا اکھنڈ بھارت کے نظریے کو آگے بڑھا رہا ہے. انڈین نیشنل کانگریس کا بھی روزِ اول سے یہی موقف ہے کہ ہندوستان کی تقسیم عارضی ہے، متحدہ ہندوستان بن کر رہےگا۔ 3جون 1947ء کو تقسیمِ ہند کے منصوبے کا باضابطہ اعلان کیا گیا تھا اور گیارہ دن بعد یعنی 14 جون کو آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں تقیسمِ ہند کو ایک سانحہ قرار دیتے ہوئے یہ عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ متحدہ ہندوستان بن کر رہے گا۔ اس موقع پر کانگریس ورکنگ کمیٹی نے جو قرارداد پاس کی تھی، اس میں مندرجہ ذیل پیراگراف آج تک جوں کا توں موجود ہے ’’ہندوستان کی شکل و صورت، اس کی جغرافیائی حدود، اس کے پہاڑوں اور سمندروں سے ہے۔ کوئی انسانی تدبیر اس صورت کو بدل سکتی ہے نہ اس کے حقیقی مقدر کو ٹال سکتی ہے۔ معاشیاتی حالات اور امور کے شدید تقاضوں کے پیشِ نظر ہندوستان کی وحدت اور بھی زیادہ ضروری ہے۔‘‘
بھارت کے طرزِ سیاست میں یہ خواہش روزِ اول سے واضح ہے اور اب کشمیر میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے وہ جنگی مزاج کی جانب بڑھ رہا ہے۔ جس وقت بھارت کو لگا کہ اب کشمیر کو کسی صورت فوجی تسلط کے زیرِ اثر دبایا نہیں جا سکتا وہ پاکستان سے براہ راست جنگ کرنے کی غلطی کر بیٹھے گا۔ پاکستان نے اگرچہ ہمیشہ کشمیر کے پرامن حل کی بات کی ہے اور آج بھی بھارت کو مذاکرات کی میز پر دعوت دے رہا ہے مگر پاکستان کی امن کی خواہش کو کمزوری گرداننے والا بھارت یہ بات بھول رہا ہے کہ پاکستان کے عوام اور حکومت دونوں ہی کسی طور کشمیر کا سودا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر بھارت حالات کو جنگ کی جانب لے جانا چاہتا ہے تو پاکستان کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
تبصرہ لکھیے