ہوم << ٹرمپ کی نرمی اور سرکریک کا مسئلہ، ایک نیا موقع - عرفان علی عزیز

ٹرمپ کی نرمی اور سرکریک کا مسئلہ، ایک نیا موقع - عرفان علی عزیز

امریکی سیاست میں اکثر صدر اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر مختلف خطوں کے لیے مختلف حکمتِ عملیاں اختیار کرتے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دورِ حکومت اسی سیاسی حکمتِ عملی کا عکس ہے، لیکن حیران کن طور پر جنوبی ایشیا میں انہوں نے پاکستان کے لیے نسبتاً نرمی اور بھارت کے لیے ایک سخت موقف اپنا رکھا ہے۔

خاص طور پر معاشی، تجارتی اور سفارتی سطح پر ٹرمپ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف زیادہ نرم اور عملی تھا۔جبکہ بھارت کو روس سے تیل کی خریداری پر ناراض ہوچکا ہے یہی وہ وقت تھا جب پاکستان میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کی سرگرمیاں تیز ہوئیں، جن میں سندھ کے ساحلی اور نیم ساحلی علاقوں کو مرکزی اہمیت دی گئی۔

سرکریک اور تیل کی دولت
سرکریک، جو کہ سندھ اور بھارتی ریاست گجرات کے درمیان واقع ایک تنگ اور متنازعہ ساحلی پٹی ہے، صرف ایک سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک معاشی و تزویراتی خزانہ بھی ہے۔ حالیہ جیو فزیکل اور ماحولیاتی تجزیوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سرکریک کے اطراف تیل اور گیس کے ممکنہ ذخائر موجود ہیں، جو دونوں ممالک کے لیے غیرمعمولی توانائی وسائل کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی سندھ کے کچھ دیگر علاقوں، جیسے ٹھٹھہ، بدین اور تھرپارکرمیں تیل و گیس کی تلاش کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر سرکریک کے مسئلے کو سنجیدگی سے سفارتی سطح پر حل کیا جائے، تو پاکستان اپنی اقتصادی خودکفالت کی طرف ایک بڑی چھلانگ لگا سکتا ہے۔

ٹرمپ کی نرمی: سفارتی تعلقات
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے بیانات میں کئی بار پاکستان کی تعریف کی، یہاں تک کہ بعض مواقع پر کشمیر جیسے حساس مسئلے پر ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ بھارت، جو اس وقت امریکا کے قریب ترین تجارتی اتحادیوں میں شمار ہوتا تھا، حیرت انگیز طور پر ٹرمپ کی کچھ پالیسیوں سے ناخوش نظر آیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پاکستان کو عالمی سطح پر تھوڑا سا سفارتی تنفس ملا۔ اگرچہ یہ نرمی مکمل اعتماد پر مبنی نہیں تھی، لیکن ایک عملی دروازہ ضرور کھل رہا تھا۔ ایسے میں یہ ضروری تھا کہ پاکستان اپنے دیرینہ تنازعات، خصوصاً سرکریک کو عالمی توجہ کا مرکز بناتا، مگر بدقسمتی سے داخلی سیاسی انتشار اور سفارتی کمزوری نے اس موقع کو گہنا دیا۔

سرکریک کا حل: اقتصادی اور سیاسی فائدہ
سرکریک کو محض جغرافیائی تنازعہ سمجھنا غلط ہوگا۔ یہ علاقہ اس وقت تیل و گیس کے ذخائر کا حامل ہے. پاکستانی ماہی گیروں کے معاشی تحفظ سے جڑا ہوا ہے. سمندری حدود کی تنظیم نو میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے. اور سب سے بڑھ کر، یہ بھارت کے ساتھ اعتماد سازی کی بنیاد بن سکتا ہے. اگر ٹرمپ یا مستقبل کی کسی امریکی انتظامیہ کی سفارتی نرمی کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان مسئلہ سرکریک کو عالمی فورمز پر اُجاگر کرے، تو نہ صرف یہ تنازع پرامن طریقے سے حل ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان ایک نیا معاشی باب بھی کھول سکتا ہے۔

امریکا جیسے طاقتور ملک کی جانب سے پاکستان کے لیے سفارتی نرمی ایک نایاب موقع ہے، جسے فوری اور مدبرانہ حکمتِ عملی کے تحت استعمال کرنا چاہیے۔ سرکریک کا مسئلہ محض ایک نقشے پر کھنچی لکیر نہیں، بلکہ یہ پاکستان کی توانائی، سلامتی اور سفارتی وقار کا مسئلہ ہے۔ جب عالمی طاقتیں مائلِ کرم ہوں، تو قومی قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تاریخی فیصلے لینے کا حوصلہ پیدا کریں۔

Comments

Avatar photo

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

Click here to post a comment