ہوم << برصغیر میں چالیس سال کے بعد مرد وعورت اپنی خوبصورتی کا خیال کیوں نہیں رکھ پاتے ؟ - عبدالعلام زیدی

برصغیر میں چالیس سال کے بعد مرد وعورت اپنی خوبصورتی کا خیال کیوں نہیں رکھ پاتے ؟ - عبدالعلام زیدی

جبکہ عرب ممالک میں ان کے بوڑھے بھی زبردست شخصیت رکھتے ہیں ، اپنے آپ کو سنبھالتے ہیں ، اس کی کئی ایک وجوہات ہیں ، مگر یہاں جس وجہ کو ذکر کرنا ہے وہ خاصی اہم لگتی ہے ، وہ میرے خیالات ہیں جن سے یقیناً اختلاف کیا جا سکتا ہے ۔

خوبصورتی اختیار کرنے کا ایک بڑا سبب مخالف جنس سے شہوانی تعلق ہے ، جو اسلام اور فطرت میں صرف نکاح کی صورت میں رکھا جا سکتا ہے ، جن معاشروں میں نکاح کی خواہش ، شہوت کے جذبات کو ہی مطلق طور پر رگڑ دیا جاتا ہے ، وہاں سے حسن و جمال کا تحفظ رخصت ہو جاتا ہے ۔میاں بیوی کا تعلق، ایک بہت عظیم چیز ہے ، یہ زندگی کی بقاء کا ضامن ہے ، یہ انسانی وجود کو بنیاد دینے والا عمل ہے ، اسی سے نوعِ انسانی آگے چلتی ہے ، خوشیوں کے عمل کا یہ بیج ہے ۔ برصغیر کا المیہ یہ ہے کہ یہاں اس عمل کو اصل میں شرافت کے اپوزٹ اور الٹ سمجھا جاتا ہے ۔

شریف وہ ہوتا ہے جو اس خواہش کا قتل کرے ، جو اس خواہش کا اظہار کرے گا ، یا اس کی بنیاد پر کوئی شرعی عمل کے بارے میں سوچے گا ۔ وہ معاشرے میں اپنی شرافت اور عزت کو کھو دے گا ۔ یہ تصور کتنی گہرائی سے ہمارے دماغوں میں پیوست ہے اس کا ایک تجربہ ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ جو مرد دوسری شادی کر چکا ہو ۔ اس کے بارے میں معاشرے کے دین دار بندے کے بھی کان کھڑے رہیں گے ، وہ اسکی بجائے اس بندے پر زیادہ اعتبار کریں گے کہ جس نے شادی نہیں کی یا ایک شادی کی ہے ۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ معاشرے کو مسئلہ دوسری شادی سے ہے ، حقیقت اس سے زیادہ تلخ اور کڑوی ہے ، مسئلہ اس خواہش اور جذبے سے ہے جو خدا نے انسان میں رکھا ہے ، اسی لیے جو مرد اپنی اکلوتی بیوی کے ساتھ بھی زیادہ چمٹ کر بیٹھے ، یا دن کے اوقات میں اسکے ساتھ خلوت اختیار کرے ۔ معاشرہ اسے بھی بدمعاش اور بدقماش جیسی نظروں سے ہی دیکھتا ہے ۔اس لیے برصغیر میں چالیس سال تک پہنچنے والے مرد اور عورت اپنے اس جذبے کا قتل کرتے کرتے اس جگہ پر آ پہنچتے ہیں کہ جہاں انہیں اپنے حسن جمال کا تحفظ ایک بکواس چیز لگتا ہے ۔

معاشرے میں لوگوں سے ملنے کی خاطر اپنا خیال رکھنا ان کی مجبوری ہوتا ہے ، نہ کہ شوق ، فطرت ، راحت کا سامان ۔ یہی وجہ ہے کہ بیویوں کا بننا سنورنا بھی شادیوں کی تقریبات کے لیے ہوتا ہے اور مردوں کے پرفیوم بھی کاروباری میٹنگز کے لیے ! اس سوچ کے پیچھے کیا کیا عوامل رہے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے ۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ برصغیر کے معاشرے میں عورت اور مرد کی فطری خواہش ایک پاپ ، گناہ ، باعث شرمندگی ، جیسی چیز سمجھیں جاتی ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں عرب کے بڈھے بھی دوسری شادی کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔شاید اسی لیے وہ اٹریکٹو اور معزز دکھائی دیتے ہیں ۔

خلاصہ یہی ہے کہ یہ خواہش ہرگز ہرگز کوئی شرمندگی کی چیز نہیں ہے وگرنہ انبیاء علیہم السلام کی ایک سے زیادہ بیویاں نہ ہوتیں ، لونڈیوں کا تصور اسلام پیش نہ کرتا ، اس عمل سے اگر اگلی نسل کی زندگی وجود پاتی ہے تو یقین رکھیں کہ اسی سے آپ کی اپنی زندگی کو بھی زندگی ملتی ہے ۔ ہاں بس ایک شرط ہے کہ یہ ساری خواہشات اسلام کی پابند رہیں اور اس سے باہر نہ نکل پائیں۔ شاید جنت میں حوروں کا تصور بھی اسی لیے ہے کہ جنت ایک بھرپور زندگی ہے !

Comments

Avatar photo

عبدالعلام زیدی

عبدالعلام زیدی اسلام آباد میں دینی ادارے the REVIVEL کو لیڈ کر رہے ہیں۔ اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے بی ایس کے بعد سعودی عرب سے دینی تعلیم حاصل کی۔ زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایم اے اسلامیات اور اسلامیہ یونیورسٹی بہاولہور سے ایم اے عربی کیا۔ سرگودھا یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ سید مودودی انسٹی ٹیوٹ لاہور میں تعلیم کے دوران جامعہ ازھر مصر سے آئے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ دارالحدیث محمدیہ درس نظامی کی تکمیل کی۔ دینی تعلیمات اور انسانی نفسیات پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment