کچھ سالوں قبل ایک قریبی دوست نے مجھے دعوت پر مدعو کیا. گھر میں داخل ہوا تو دیکھا کہ مہمان و میزبان سب ایک کمپیوٹر سکرین کے گرد جمع ہیں اور سبحان اللہ ، اللہ اکبر کے نعروں کا غلغلہ ہے. میں بھی جذبہ ایمانی سے سرشار آگے بڑھا کہ جان سکوں ماجرہ کیا ہے؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سرزمین عرب پر کوئی ایسا درخت دریافت ہوگیا ہے جو با آواز بلند .. جی ہاں بآواز بلند الله سبحان تعالیٰ کی حمد بیان کر رہا ہے. زمین کا مالک اس درخت کو کٹوا کر وہاں ایک عمارت تعمیر کرنے کا متمنی ہے مگر اس نے جدید و قدیم سب نسخے آزما لئے لیکن درخت نہ اب کٹتا ہے نہ تب. بلآخر اس نے یہ اعلان کردیا ہے کہ جو اس درخت کو کاٹ دے گا میں اسے ملین ڈالر کا انعام دوں گا اور یہ بھی کہ اب تک ہر کوشش ناکام رہی ہے. یہی وہ حیرت انگیز بریکنگ نیوز تھی جسے کسی ویب سائٹ سے پڑھ کر احباب سبحان اللہ اور اللہ اکبر کی صدائیں بلند کر کے جھوم رہے تھے. میں نے بھی کہا سبحان اللہ ! دوستو، رفیقو یہ تو کمال ہوگیا ! مجھے تو یہ حضرت موسیٰ ع کی لاٹھی سے بھی بڑا معجزہ معلوم ہوتا ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم اسی وقت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کو فون کریں اور دنیا کو بتادیں کہ دیکھ لو اسلام ہی واحد سچا دین ہے. ہمارے پاس اب واضح ثبوت اور اللہ کا معجزہ موجود ہے. ہمیں چاہیئے کہ ہم غیرملکی مبصرین کو مدعو کریں یا کم ازکم قومی ٹی وی چینل یا خبر رساں اداروں کو ہی اس پر ایک دستاویزی فلم بنانے پر مجبور کریں.
.
میری اس تجویز کو سن کر تمام احباب خاموش، جواب ندارد. کوئی کھسیانی ہنسی ہنسا تو کوئی نظریں چرانے لگا. کیوں؟ اسلئے کہ دل میں یہ سب جانتے تھے کہ اس قسم کے قصے کہانیاں من گھڑت ہوا کرتے ہیں جن کا دین سے تعلق تو دور کی بات اس کا کوئی ناطہ عقل و فہم سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا. مگر چونکہ جھوٹ بولنے والے نے یہ جھوٹ اسلام کا نام لے کر بولا ہے اور اسے تقدس کی پوشاک پہنا کر لکھا ہے اسلئے کسی میں ہمت نہیں کہ جھوٹے کا گریبان پکڑسکے. حالانکہ اگر جھوٹ بولنا گناہ ہے تو اسلام کا نام لے کر جھوٹ بولنا گناہ کبیر ہے. آج ہم میں سے بہت سے افراد ایسے موبائل یا سوشل میڈیا پیغامات بھیجتے نظر آتے ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہوتا ہے کہ فلاں صاحب کو ایک خواب آیا جس میں اس نے فلاں مقدس شخصیت جیسے بی بی زینب رض کو دیکھا جو کہہ رہی ہیں کہ فلاں عمل اتنی بار لازمی کرو. ساتھ ہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں نے عمل کیا تو اسے مالی فائدہ پہنچا اور فلاں نے عمل نہ کیا تو اسے نقصان ہوگیا یا وہ کسی حادثے سے دوچار ہوگیا (استغفراللہ). کیا اس طرح کی خرافات چاہے وہ بظاہر کتنی ہی مقدس کیوں نہ نظر آئیں، لوگوں میں پھیلا کر آپ کون سے دین کی خدمت کررہے ہیں؟ کیا اسلام کا پیغام معاذ اللہ اتنا اپاہج ہے کہ اسے پہنچانے کیلئے ان کہانیوں کا سہارا لینا پڑے؟ صحیح مسلم میں میرے نبی ص نے کی ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ” کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ کوئی بات سُنے اور بغیر تصدیق کے آگے بیان کر دے“۔ خدارا ایسے پیغامات سے بلیک میل ہو کر انہیں بناء تصدیق نہ پھیلائیں. جان لیں کہ ایسا کرنا ثواب نہیں قبیح گناہ ہے. جس کتاب میں تخلیق کائنات پر تدبر کرنے اور مظاہر فطرت میں تفکر کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، آج اسی کتاب کے حامل حقیقی تحقیق کی بجائے صرف آلو یا بادلوں پر اللہ کا نام کھوج رہے ہیں. عزیزان من، اللہ رب العزت کی حقیقی حمد صرف حلق سے "ح" نکال کر سبحان اللہ کہنا نہیں ہے بلکہ اس کی تخلیق پر تحقیق کرکے قوانین کی دریافت و ایجادات کرنا ہے. پھر سبحان اللہ کہنا محض ایک کلمہ نہیں رہے گا بلکہ زبان حال بن جائے گا
.
تبصرہ لکھیے