قدرت اللہ شہاب کا تخلیق کردہ ماں جی ایک universal concept of mother پیش کرتا ہے۔ایسے ہی جیسے ماں کی مامتا، محبت اور شفقت universalہے۔ ماں جی ایک ایسا خوبصورت کردار ہے کہ جو ہر شخص کو زندگی میں یکساں میسر آتا ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ کسی کو بھائی یوسف علیہ السلام کے جیسے مل جائیں اور کسی کو جان نچھاور کرنے والے ۔ تمام رشتوں میں کوئی کمی پیشی ممکن ہے پر ماں کی مامتا اور شفقت ہر اولاد اور ہر شخص کے لیے یکساں ہے، ایسے ہی جیسے رب کریم کی رحمت کسی خاص و عام کا تفاوت نہیں کرتی۔ کسی بھی کمسن بچے کے لیے اس کی پہلی ہمت اس کی ماں ہے ۔ ماں کی آغوش ہی اُس کے لیے سب سے محفوظ اور آرآم دہ جگہ ہے ۔ کسی بچے کو ماں کی آغوش سے لپٹ کر مر جانا ممکن ہوگا مگر ماں سے جدائی کا تصور کرنا بھی مُحال ترین کام ہوگا ۔ اگلے دنوں میں راہ ہی سے گزر رہا تھا کہ ایک خاتون کو اپنے پانچ سالہ فرزند کے ساتھ چوراہے پر بیٹھے دیکھا ۔
میں جوں ہی اُن کے پاس سے گزرا، غیر دانستہ میرے کانوں نے ماں کو سسکی لے کر اپنے بیٹے سے گویا ہوتے سُنا ، “بیٹا تم میری ہمت ہو ،تم نے میرا سہارا بننا ہے “.وہ اُس بچے سے استفسار کر رہی تھی “بنو گے نا میری ہمت میرا حوصلہ ؟ “وہ لمحہ تھا کہ میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ میرا دل خون کے آنسو رو رہا تھا کہ کیوں اج ایک ماں کا کردار اس طرح سے مجبور ہے۔ بچہ چھوٹے سے ہاتھوں کو اپنی ماں کی گود پررکھ کر ، حیرانگی اور کشمکش میں تھا۔ آگرچہ وہ بچہ تھا پر اُس کی ماں کی آہ اُسے پوری دنیا فتح کرنے پر اُکسا رہی تھی مگر افسوس فی الحال اس میں اتنی سکت کہاں تھی کہ کچھ کر پاتا۔
میں نے اپنے تہ اُن سے پوچھ لیا کہ اگر کوئی مدد کر پاؤں تو خوشی ہوگی مگر اُنہوں نے انکار کے ساتھ مجھے جانے کا کہا ۔ میں کئی دنوں تک سوچتا رہا کہ نہ جانے ان کی کیا پریشانی تھی ۔ یہ دنیا Human Trust کے دھاگے پہ رواں دواں ہے۔ اِسی لمحے ہی کروڑوں گاڑیاں ایک دوسرے کے سامنے سے گُزر رہی ہیں اور ان میں موجود سوار بغیر کسی contract کے اپنی سب سے انمول شے،اپنی زندگی کا داؤ کھیل رہے ہیں۔ ایسا اِس لیے ہے کیونکہ انسان trust کے خوبصورت دھاگے پہ چلتا ہے۔ پھر نجانے ایسا کیوں کہ ہم اپنی society میں مجبور کرداروں کو کیوں نہیں دیکھ پاتے۔ ایسا کیوں ہے کہ ہم اپنے سامنے بہت سوں کو لُقمہ اجل بنتے دیکھتے ہیں اور ہمارے لب یہ گنگناتے رہ جاتے ہیں کہ،
رحمتیں ہیں تیری اغیار کے کاشانوں پہ
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پہ
نہ جانے کب تک ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہونگے اور نہ جانے کب اور کہا سفینہ غم دل جا رکے گا۔



تبصرہ لکھیے