ہوم << پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے - ڈاکٹر محمد شافع صابر

پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے - ڈاکٹر محمد شافع صابر

میرا نکتہ نظر یہی تھا اور یہی رہے گا کہ شادی کرنے سے پہلے لڑکی کے والدین لڑکے کی اچھی طرح چھان بین کروائیں. جہاں سے ہو سکے،لڑکے کے متعلق معلومات حاصل کریں اور پھر دونوں کا نکاح کریں، لیکن یہ کھبی مت سوچیں کہ اب سے آپ اپنی بیوی کی زندگی کے ذمہ دار نہیں.

اب سے وہ ساری کی ساری اپنے شوہر کی زمہ داری ہے، اور رخصتی سے پہلے آپ بیٹی/ بہن کو یہ لازمی باور کروائیں کہ ہم نے تمہارا نکاح ایک انسان سے کروایا ہے. اگر وہ انسان کی شکل میں ایک جانور نکلے تو تم نے پریشان نہیں ہونا،بلکہ اپنے باپ کے گھر واپس چلی آنا اور باپ کے گھر کے دروازے تمہارے لیے ہمیشہ کھلے ہیں ۔ ایک سنگین غلطی جو پاکستانی والدین کرتے ہیں، وہ یہ کہ شادی کے ، اگر حالات سازگار نا ہوں، میاں بیوی کی آپس میں بن نہیں رہی ہو،تو اپنی بیٹی کو ہمشیہ گھر بچانے کی تلقین کرتے ہیں،بلکہ اس پر پریشر ڈالتے ہیں کہ وہ گھر بسائے۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ گھر بچانا،شادی بچانا صرف عورت کی ہی ذمہ داری کیوں ہے؟
ہمیشہ عورت ہی کیوں کمپرومائز کرتی ہے؟
کیا اسکی زندگی معنی نہیں رکھتی؟
اسکی خوشیوں کا کیا؟
اسکے خوابوں کا کیا؟

یعنی وہ شادی بچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دے۔ روزمرہ ہم ایسے کئی واقعات دیکھنے ہیں کہ شوہر بیوی کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے۔ ساس اور شوہر مل کر مار رہے ہوتے ہیں، سوال تو یہ ہے کہ پاکستانی عورت کرے تو کرے کیا ؟ والدین کہتے ہیں کہ تم شادی کے بعد ہمارا مسئلہ نہیں، شوہر تشدد کرتا ہے، وہ کہاں جائے؟ کس سے منصفی چاہے؟ کہاں فریاد کرے؟ کہاں عرضی ڈالے ۔ پاکستانی عورت ظلم سہہ رہی ہے اور زندگی گزار رہی ہے۔ گھریلو تشدد برداشت کرتی ہے،حتی کہ سسرالی گھر سے نکال دی جاتی ہے،لیکن پھر بھی اسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا جینا مرنا اسی گھر میں ہے.

والدین ساتھ رکھنے کو تیار نہیں،شوہر مارتا ہے،ساس جینا حرام کرتی ہے،لیکن پھر بھی سارا زور اس پر ڈالا جاتا ہے کہ وہ کمپرومائز کرے،گھر بچائے، اگر وہ گھر نہیں بچائے گی تو بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا،لیکن کوئی یہ کیوں نہیں سمجھتا کہ گالم گلوچ اور مار کٹائی والے ماحول میں پلا بچہ نارمل نہیں رہ سکتا ۔ پاکستانی عورت مظلوم ہے، لیکن وہ مجبور بھی ہے، والدین کے ہاتھوں مجبور، بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر مجبور خاموش ظلم برداشت کرتی پاکستانی عورت۔ قابل ترس ہے۔ یہ معاشرہ ناقابل اصلاح ہے، پاکستانی عورت غیر محفوظ ہے، وہ اس معاشرہ کے ہاتھوں پس رہی ہے، لیکن وہ بے بس ہے،لاچار ہے،مجبور ہے،کمزور ہے ۔

کاش رخصتی والے دن سارے والدین اپنی بیٹی کو یہ کہہ کر وداع کریں کہ ہم نے انسان سمجھ کر اس سے تمہاری شادی کی ہے ۔ اگر جانور نکل آئے، تشدد پر اتر آئے تو واپس چلی آنا ۔باپ کے گھر کے دروازے تمہارے لئے ہمیشہ کھلے ہیں تو اس سے آپ کی کی بیٹی کو جو تحفظ کا احساس ہو گا وہ ناقابلِ بیان ہے۔

Comments

Click here to post a comment