جب ہم “روحانی ادب” کی اصطلاح کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ صرف الفاظ کی ترتیب نہیں بلکہ روح کی گہرائیوں سے پھوٹنے والے مشاہدات، مکاشفات، اور اسرارِ باطن کی سچائیوں کا نچوڑ ہوتا ہے۔ ایسا ادب جو قاری کو ظاہری دنیا سے اٹھا کر باطن کے سفر پر گامزن کرے، جو صرف معلومات نہ دے بلکہ مشاہدات کی آنکھ کھول دے، جو صرف تخیل نہ ہو بلکہ تجربے کا نچوڑ ہو۔
روحانی ادب میں الفاظ سادہ ہوتے ہیں مگر معانی تہہ در تہہ۔ ایسے الفاظ جن میں نور چھپا ہو، ایسے جملے جو دل کے قفل کھول دیں۔ یہی وہ ادب ہے جسے ہم “حروف آشنائی” کے توسط سے محسوس کرتے ہیں۔ “حروف آشنائی” صرف عنوان نہیں بلکہ وہ دروازہ ہے جو لفظوں کی سطح سے آگے، لطیف تر سچائیوں کی جانب کھلتا ہے۔ حروف آشنائی دراصل ایک روحانی تجربے کا نام ہے۔ ایسا تجربہ جس میں قاری اور لکھاری دونوں یکجان ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف لکھنے والا حروف میں اسرار بکھیرتا ہے، اور دوسری طرف پڑھنے والا انہی اسرار کو جذب کرکے ایک نیا جہان دریافت کرتا ہے۔
حروف جب کسی پر مہربان ہوتے ہیں تو حروف آشنائی حاصل ہوتی ہے۔
ان حروف کے پیچھے کون سی طاقتیں کارفرما ہوتی ہیں؟
حروف کے موکلات اور اعوان کیوں ہوتے ہیں؟
حروف کو اعداد کی نصرت کیوں حاصل ہے؟
نقطے بعض حروف کا مقدر کیوں بنتے ہیں اور بعض حروف ان سے بے نیاز کیوں؟
یہ سوالات معمولی نہیں، بلکہ روحانی ادب کی بنیاد بننے والے وہ رموز ہیں جو ہر قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
حروف کی کائنات وسیع ہے۔ بعض حروف آنکھوں سے جھانکتے ہیں، بعض چہروں پر لکھے ہوتے ہیں، کچھ خاموشی کی زبان ہوتے ہیں، کچھ صدا میں چھپے ہوتے ہیں۔ حروف کو بیج کی طرح دیکھا ہے، جو کسی دل میں بو دیا جائے تو ایک دن “عرفان” کا درخت بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے روحانی مشاہد لکھتے نہیں، “حروف کو اتارتے ہیں”۔ روحانی ادب دراصل اک تجریدی روشنی ہے جو قاری کے اندر کسی “کُن” کے انتظار میں بیٹھی ہوتی ہے۔�
جب وہ روشنی، کسی لفظ، کسی فقرے، یا کسی حروف آشنائی کے لمس سے جاگ اٹھتی ہے، تو قاری خود ایک تخلیق بن جاتا ہے۔ وہ صرف پڑھنے والا نہیں رہتا، بلکہ محسوس کرنے والا، متأثر ہونے والا، اور پھر خود کسی روز لکھنے والا بن جاتا ہے۔ “حروف آشنائی” ایک نقطۂ آغاز بن جاتا ہے، جہاں سے روحانی ادب جنم لیتا ہے۔ یہ صرف صفحے پر بکھرے الفاظ کا کھیل نہیں، بلکہ روحوں کا ایک خفیہ مکالمہ ہے۔ ایک لطیف دعوت ہے ان قارئین کے لیے جو لفظوں کے پیچھے چھپی روشنی کو پہچان سکیں۔
وہ جو کائنات کے ہر ذرّے کو ایک معنی، ہر سطر کو ایک راز، اور ہر خاموشی کو ایک ندا سمجھیں۔ جو جان جائیں کہ حروف جب مہربان ہو جائیں، تو حقیقت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔



تبصرہ لکھیے