پاکستان، جو ایک ایٹمی طاقت ہے، قدرتی وسائل سے مالا مال، نوجوانوں کی بڑی تعداد سے بھرپور، زرخیز زمین، بلند و بالا پہاڑ، بہتے دریا، طویل سمندری ساحل اور ایک عظیم اسلامی و ثقافتی ورثہ رکھنے والا ملک ہے، آج بدترین معاشی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی بحران کا شکار ہے۔
مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری نے کروڑوں نوجوانوں کو بے حال کر دیا ہے، روپے کی قدر گر رہی ہے اور عوام مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟
1. رشوت اور کرپشن:
ناسور جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے. یہ وہ دیمک ہے جس نے ریاست کے تمام ستونوں کو چٹ کر دیا ہے۔ جب اختیارات امانت نہیں بلکہ ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بن جائیں تو نظام عدل و انصاف دفن ہو جاتا ہے۔
اسلام نے کرپشن کو کھلم کھلا جنگ قرار دیا ہے:
"لعن الله الراشي والمرتشي" (الحدیث)
"اللہ تعالیٰ نے رشوت دینے اور لینے والے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔"
2. نااہل قیادت اور ناقص پالیسی سازی:
قیادت جب اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے ناواقف ہو، اور حکمرانی کو خدمت کے بجائے حکومت کا نشہ سمجھا جائے، تو وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "کُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" "تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔"
3. سیاسی عدم استحکام اور اقتدار کی جنگ:
جب اقتدار کو عبادت کے بجائے ذاتی دشمنیوں، سازشوں، اور طاقت کی ہوس کا ذریعہ بنایا جائے تو ریاستی ادارے کمزور ہو جاتے ہیں، اور غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری کا گلا گھونٹ دیتی ہے۔
4. عدالتی نظام کی کمزوری:
اسلام کا عدالتی نظام عدل و مساوات کا مظہر ہے۔ ریاست مدینہ میں حضرت محمد ﷺ کے دور میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ تھا۔ آپؐ نے فرمایا:
"اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی، تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا". (بخاری و مسلم)
جب عدل طبقاتی ہو جائے، تو بدعنوانی قانون سے محفوظ رہتی ہے اور مظلوم مایوس۔
5. تعلیم کی زبوں حالی:
اسلام کی پہلی وحی ہی تعلیم پر نازل ہوئی:
"اقْرَأْ" (پڑھ)۔
علم کو عبادت کا درجہ دیا گیا۔ لیکن آج ہمارے تعلیمی ادارے علم کے بجائے ڈگریاں بانٹنے کے مراکز بن چکے ہیں۔
6. توانائی کا بحران اور صنعتی زوال:
صنعت کسی بھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ لیکن ناقص منصوبہ بندی اور بدعنوان معاہدوں نے پاکستان کی صنعتی بنیاد کو کمزور کر دیا ہے۔
7. قرضوں پر انحصار اور معیشت کی غلامی:
ہم سودی قرضوں کے جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ آزادی محض نعرہ رہ گئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"اللہ نے سود کو حرام اور تجارت کو حلال قرار دیا ہے". (البقرہ: 275)
اور سودی نظام کے خلاف اعلان جنگ فرمایا:
"اگر تم باز نہ آئے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ" .(البقرہ: 279)
اسلامی نظام: واحد حل
اگر ہم حقیقتاً اس ملک کو بحرانوں سے نکالنا چاہتے ہیں، تو ہمیں اسلامی نظامِ حکومت، اسلامی معیشت، اسلامی عدل، اسلامی اخلاق اور اسلامی معاشرت کو اپنانا ہوگا۔
اسلامی نظام حکومت
یہ عوام کی خدمت، عدل، مشاورت اور شفافیت پر مبنی ہے۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں ایک عام عورت بھی خلیفہ وقت سے سوال کر سکتی تھی۔ قائد صرف حکمران نہیں، امین اور خادم ہوتا ہے۔
اسلامی نظام معیشت
یہ سود سے پاک، زکوٰۃ، خیرات، وقف اور مساوات پر مبنی ہے۔ اسلام دولت کو چند ہاتھوں میں محدود نہیں رہنے دیتا۔ دولت کی گردش، پیداوار کی ترغیب، غربت کا خاتمہ اور محنت کشوں کا تحفظ اسلامی معیشت کی بنیاد ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظام
اسلام نے دیانت، سچائی، ایثار، اخلاص، تحمل، عدل، عفو اور احسان جیسے اوصاف کو معاشرتی ستون بنایا۔ جب فرد دیانت دار ہوگا، تو ادارے خود بخود بہتر ہو جائیں گے۔
اسلام کا معاشرتی نظام
اسلامی معاشرت خاندانی نظام، حقوق العباد، پڑوسیوں کے حقوق، یتیموں، مسکینوں، اور بزرگوں کے احترام پر مبنی ہے۔ ایسا معاشرہ امن، محبت اور بھائی چارے سے بھرپور ہوتا ہے۔
اسلام کا عدالتی نظام
یہ نظام بلاامتیاز انصاف، فوری فیصلے، گواہی کی اہمیت اور جھوٹی گواہی پر سخت سزا پر مبنی ہے۔ اسلامی عدل قیامِ امن کی ضمانت ہے۔
نبی کریم ﷺ کا اسوہ حسنہ: مکمل نمونہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ" (الاحزاب: 21)
"یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔"
آپؐ نے دین کو صرف عبادات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کے احکام کو نافذ کیا۔ دین صرف چند عبادات نہیں بلکہ مکمل نظامِ حیات ہے۔
حل کیا ہے؟
اسلامی نظام حکومت کا قیام، سود سے پاک معیشت، تعلیم، انصاف، صحت اور روزگار پر فوری توجہ، سخت اور غیرجانبدار احتساب، نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی، دیانت دار قیادت، ذاتی اصلاح اور قومی شعور. اگر ہم اللہ کے دین کو مکمل طور پر اپنائیں، اس پر عمل کریں اور ریاستی سطح پر نافذ کریں، تو ان شاء اللہ پاکستان نہ صرف بحرانوں سے نکلے گا، بلکہ ایک عظیم اسلامی فلاحی ریاست بنے گا، جیسا خواب علامہ اقبال نے دیکھا اور قائداعظم نے بیان کیا تھا۔
تبصرہ لکھیے