قدرتی آفات انسانی زندگی کا وہ تلخ پہلو ہیں جو کسی پیشگی اطلاع کے بغیر آتی ہیں اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ زلزلے، سیلاب، طوفان، لینڈ سلائیڈ، گرمی کی لہر، اور خشک سالی جیسی آفات صرف جانی نقصان ہی نہیں کرتیں بلکہ معاشی، سماجی اور نفسیاتی سطح پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان آفات کی شدت اور اثرات اس لیے زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ ہماری تیاری ناکافی، منصوبہ بندی کمزور اور عوامی شعور محدود ہے۔
سیلاب پاکستان میں سب سے عام اور خطرناک قدرتی آفت ہے۔ 2010 اور 2022 کے تباہ کن سیلاب نے لاکھوں افراد کو بے گھر، فصلوں کو تباہ، اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچایا۔ بدقسمتی سے، ہر سال ہم یہی مناظر دیکھتے ہیں مگر ہمارے انتظامات صرف وقتی اور عارضی ہوتے ہیں۔ بروقت نکاسی آب، پشتوں کی مرمت، اور سیلابی علاقوں سے لوگوں کی بروقت نقل مکانی جیسے بنیادی اقدامات اکثر نظر انداز کیے جاتے ہیں۔
زلزلے بھی پاکستان میں خطرناک ثابت ہو چکے ہیں، خاص طور پر 2005 کا زلزلہ جس نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ اس کے بعد زلزلہ مزاحم تعمیرات کا شعور بڑھا مگر یہ صرف شہری علاقوں تک محدود رہا۔ دیہی علاقوں میں اب بھی کچی تعمیرات اور غیر محفوظ مکانات خطرے کی علامت ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم قدرتی آفات کو روک سکتے ہیں؟بے شک نہیں، مگر ہم ان کے اثرات کو کم ضرور کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے سب سے پہلے عوامی آگاہی ضروری ہے۔
اسکولوں، کالجوں، اور میڈیا کے ذریعے لوگوں کو تربیت دی جائے کہ آفات کے وقت کیا کرنا ہے۔ دوسری چیز ریسکیو اور ریلیف نظام کو جدید اور مؤثر بنانا ہے۔ NDMA اور PDMA جیسے اداروں کو صرف کاغذوں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر فعال بنایا جائے. تیسری اور اہم بات موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو سنجیدگی سے لینا ہے۔ بے تحاشا جنگلات کی کٹائی، پانی کا ضیاع، اور آلودگی قدرتی آفات کو بڑھا رہی ہے۔ ہمیں شجر کاری، پانی کی بچت، اور ماحول دوست پالیسیوں کو فروغ دینا ہوگا۔
حکومت کے ساتھ ساتھ عام شہری، تعلیمی ادارے، اور سماجی تنظیمیں بھی اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ محلے کی سطح پر کمیٹیاں بنائی جائیں، ہر علاقے میں ایمرجنسی پلان موجود ہو، اور عوام کو پہلی امدادی تربیت (First Aid Training) دی جائے۔ آخر میں، قدرتی آفات کو قسمت کا لکھا مان لینا کافی نہیں، بلکہ عقل، تدبیر اور تیاری کے ذریعے ہم ان کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں۔ محفوظ قومیں وہی ہوتی ہیں جو آنے والے خطرات سے پہلے سے باخبر اور تیار ہوں۔



تبصرہ لکھیے