نبی کریمﷺ کی ناموس کا تحفظ دراصل دین اسلام کا تحفظ ہے،اللہ کریم کے بعد جس ہستی کا ہم پر سب سے زیادہ احسان ہے وہ سرور کائنات رحمت عالم حضرت محمد ﷺکی ذات اقدس ہے. مسلمانوں کا نبی کریم ﷺ سے جو تعلق ہے وہ تمام دوسرے انسانی تعلقات سے بہت بڑا ہے.
دنیا کا کوئی رشتہ اس رشتے سے اور کوئی تعلق، اس تعلق سے جو نبی کریم اور اہل ایمان کے درمیان ہے. ذرہ برابر بھی کوئی نسبت نہیں رکھتا . نبی کریمﷺ مسلمانوں کیلئے ان کے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شفیق و رحیم اور ان کی اپنی ذات سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں. لہٰذا وہی سب سے زیادہ قریب بھی ہیں. یہاں تک کہ جان سے بھی زیادہ قریب، حقدار اور ولی بھی ہیں. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امام الانبیاء ﷺ نے ارشاد فرمایا :
“میں دنیا اور آخرت میں ہر مومن کا سب سے زیادہ قریبی ہوں تو جس مسلمان کا انتقال ہو جائے اور مال چھوڑے تو وہ اس کے عصبہ (یعنی وارثوں) کا ہے اور جو قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آئیں کہ میں ان کا مددگار ہوں .”(صحیح بخاری)
جب رسول اللہﷺ کا حق تمام ایمان والوں پر سب سے زیادہ ہے تو ان کی محبت بھی اہل ایمان کے دلوں میں سب سے زیادہ ہونی چاہیے. یہاں تک کہ اپنی ذات سے، اپنے ماں باپ سے، اپنی اولاد سے بلکہ تمام انسانوں سے زیادہ محبت رسول اللہ ﷺ کی ذات سے کرنا لازم ہے. ارشاد ہے :
“تم میں سے کوئی شخص صاحب ایمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل میں میری محبت اپنے والد اپنے لڑکے اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو.”(بخاری، مسلم)
اسی طرح یہ بھی روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا :
“یارسول اللہ! آپ کی محبت میرے دل میں کائنات کے تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے، سوائے میرے نفس کے تو آقا نے فرمایا کہ اپنے نفس سے بھی زیادہ میری محبت ہونی چاہیے، تو انہوں نے کہا کہ اب اپنے نفس سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں.”
ناموس سے مراد آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان ہے۔ ناموس رسالت سے مراد رسول کی آبرو، عزت، شہرت، عظمت اور شان ہے. اور تحفظ ناموس رسالت سے مراد ہے کہ کسی بھی رسول کی آبرو، شہرت، عزت، عظمت یا شان کا لحاظ کرنا،ہر قسم کی عیب جوئی اور ایسے کلام سے پرہیز کرنا جس میں بے ادبی ہو ان تمام امور کا لحاظ رکھنا فرض ہے اور مخالفت کرنا کفرہے . اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کے لیے سیدنا محمدﷺ کو رسول، رہنماء و رہبر بنا کر مبعوث فرمایاآپ ﷺ نے اپنوں اور بیگانوں میں تریسٹھ سالہ ظاہری زندگی بسر کی وہ بھی بھر پور تمام کے ساتھ لین دین کیا .مسجد کے مصلیٰ سے لے کر سربراہ ریاست تک آپ نے معاملات سر انجام دیئے.
اپنے تو کجا بیگانوں اور مخالفوں نے بھی تسلیم کیا کہ ان کی ذات اقدس کے معاملات بھی اس قدر امین وپاکیزہ ہیں کہ اس کی مثال نہیں ملتی. لیکن اس کے باوجود کفار نے آپﷺ کے خلاف توہین آمیز الفاظ استعمال کئے. آپ ﷺ نے اپنی ساری ظاہری حیات میں کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا .ہاں، حدود الٰہی توڑنے اور مخلوق پر ظلم و ستم کرنے والوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔حضور اقدس ﷺکی ذاتِ اقدس میں اللہ جل شانہ نے وہ تمام انسانی بلند اوصاف و اخلاق جمع فرمادیئے، جن پر ”شرف انسانی“ کی بنیاد قائم ہے،نحضرتﷺکی نبوت ورسالت اس لحاظ سے بھی تمام انبیاء سے بلند تر ہے کہ باقی انبیاء محض نبی ہیں جبکہ حضورؐ خاتَم النبیین ہیں.
ہر نبی اپنے سے پیشرو پیغمبر کیلئے مصدق اور بعد میں آنے والے نبی کیلئے مبشّر ہوتا تھا یعنی اپنے سے پہلے گذرنے والے نبی کی تصدیق کرتا تھا .اور جس نبی نے بعد میں مبعوث ہونا ہوتا اس کی آمد کی بشارت دیتا لیکن آپ ؐ کی ذات اقدس پر نبوت کا سلسلہ چونکہ ختم ہو چکا ہے. اور آپﷺ کی نبوی تعلیمات قیامت تک کی انسانیت کیلئے باعث رشدو ہدایت ہیں. آپ ﷺ کی نبوت کے بعداب قیامت کا مرحلہ ہے،اس دوران مزید کسی نبی،وحی اور آسمانی کتاب کی نہ گنجائش ہے اور نہ اس کا قائل مسلمان ہے۔قرآن کریم میں سابقہ انبیاء کی بعثت کا تذکرہ کرتے ہوئے قریۃ یعنی بستی کا ذکر کیا گیا ہے جو اس بات کی صریح اور بین دلیل ہے کہ ان سب کی نبوت،نبوت ِخاصہ تھی جومحدود زمان و مکاں پر تھی.
جبکہ آنحضرتؐ کی نبوت،نبوتِ تامہ تھی جیساکہ ارشاد خداوندی ہے :
“(اے پیغمبرؐ) فرما دیجیے!میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں.”
آپﷺ کے وصف رسالت کا یہ عموم بھی آپ ؐ کی تمام انبیا ء پر برتری اور سرداری کو ثابت کرتا ہے۔ نبی کریمؐ کی زندگی میں جب عام الحزن یعنی غم کا سال آیاتو اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے دل کے اطمینان اور تسلی کے لئے آپؐ کوسفر معراج کروا کر اپنی ملاقات کے شرف سے مشرف فرمایا. اس سفر میں جب آپ ؐکا پہلا پڑاؤ مسجد اقصیٰ میں ہوا تواللہ رب العزت نے آپﷺ کے استقبال کیلئے تمام انبیاء کرامؑ کومسجد اقصیٰ میں جمع فرمایا. یہ اعزاز بھی حضور اقدس ﷺ کے حصے میں آیا کہ آپﷺ کے علاوہ کسی نبی کیلئے بغرض استقبال سب نبیوں کو جمع نہیں کیا گیا.
پھر اس سے بڑھ کر اس اعزاز سے نوازا گیا کہ جب تمام انبیاء صف باندھے کھڑے تھے اور کسی امام کے انتظار میں متجسسانہ نگاہوں ادھ ادھر دیکھ رہے تھے تو اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیلؑ نے آکر آپﷺ کو مصلیٰ امامت پر لا کھڑا کیااور یوں آپﷺ کو امام الانبیاؐ کے عظیم منصب سے سرفراز کیا گیا۔یہ عظیم منصب بھی آپﷺ کو علو و مرتبت میں تمام انبیاء سے ممتاز کرتا ہے۔حضور ﷺہی اس کیلئے عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہیں اور ان ہی کے نام سے اس کی آبرو قائم ہے. ایک اور آیت میں حضور ﷺکی اتباع کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے:
” اور رسول جو کچھ تمہیں دے دیا کریں،وہ لے لیا کرو، اور جس سے وہ تمہیں روک دیں، رک جایا کرو، اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سزا دینے میں بڑا سخت ہے”. (سورۃ الحشر:۷)
ایک دوسری آیت میں اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کو مومنین کا شیوہ بتاتے ہوئے کہا گیا:
“ایمان والوں کا قول تو یہ ہے کہ جب وہ بلائے جاتے ہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف کہ(رسول) ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو وہ(ایمان والے) کہیں کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا”.(سورۃ النور:۱۵)
ایک اور جگہ وضاحت کردی ہے کہ اللہ اور رسولﷺ کے فیصلے اور حکم آنے کے بعد کسی مومن مرد، عورت کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اس کے برعکس من مانی کریں. ایسی صورت میں سوائے تعمیل حکم کے اس کے لئے کسی اور راہ کو اختیار کرنے کی گنجائش نہیں. ہر دور میں اہل ایمان نے آپ ﷺ کی شخصیت کے ساتھ تعلق ومحبت کی لازوال داستانیں رقم کیں .اور اگر تاریخ کے کسی موڑ پرکسی بدبخت نے آپﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی کرنے کی کوشش کی تو مسلمانوں کے اجتماعی ضمیر نے شاتم رسولﷺ کے مرتکبین کو کیفر کردار تک پہنچایا ہے. یہی وجہ ہے کہ عالم کفر ہمیشہ مسلمانوں کے دل سے رسول اللہﷺ کی محبت و عقیدت کو ختم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے.
خاتم النبیّینﷺ کی اطاعت ہی اسلام ہے. قرآن مجید میں اطاعت و اتباع کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کی تعظیم، تکریم اور ادب کی بھی تاکید کی گئی ہے-قرآن کریم میں تعظیم و ادب بجا لانے والوں کی تحسین کی گئی، انہیں اجر عظیم اور بخشش کی نوید سنائی گئی جبکہ اس کے بر عکس آداب و تعظیم سے غفلت برتنے والوں کو تنبیہ بھی کی گئی اور درد ناک عذاب کا انجام بھی سنایا گیا،آپ ﷺ کو ایذا پہنچانے والوں اور گستاخی کرنے والوں کیلئے سخت احکامات نازل ہوئے. یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرامؓ کی زندگیاں عشق مصطفی اور ادب مصطفی سے عبارت ہیں.
مثلاً آپؐکا خون مبارک زمین پہ نہ گرانا، وضو کا پانی نیچے نہ گرنے دینا بلکہ اسے اپنے اجسام پہ ملنا، موئے مبارک سنبھال کر رکھنا حتیٰ کہ آقا کریم ﷺ کے لعاب شریف سے شفا اور برکت حاصل کرنا .اور اس کے علا وہ اور بھی کئی مثالیں موجود ہیں .جس میں صحابہ کرام ؓ کا عشق و محبت ملتا ہے،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہمیں اپنے پیا رے آقاسید الکونین،امام الانبیاء،خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی اتباع و پیروی کر نے کی توفیق نصیب فرمائیں۔



تبصرہ لکھیے