جب خواہشات شریعت پر غالب آ جائیں تو پھر ایسے واقعات کا پیش آنا تعجب خیز نہیں. اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو انسانی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو فیصل نہ بنائے، بلکہ ہر معاملے میں احکامِ الٰہی کو بنیاد بنائے۔
مگر تاریخ گواہ ہے کہ انسان نے ہمیشہ خالق کے احکام سے روگردانی کرتے ہوئے اپنی نفسانی خواہشات کو مقدم رکھا۔ یہی رویہ انسانیت کو نقصان، ظلم اور بربادی کی راہ پر لے آیا۔ حالیہ صوبہ بلوچستان میں پیش آنے والا واقعہ بھی اسی فکری بغاوت اور شرعی احکام سے انحراف کی ایک دل دہلا دینے والی مثال ہے۔ ظلم و بربریت کی یہ انتہا نہ صرف قانون، بلکہ ضمیر انسانی کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اس سانحے نے ہمارے ضمیر میں کچھ بنیادی سوالات کو جنم دیا ہے۔
ان سوالات پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ ہم مسلمان ہو کر بھی کس قدر شریعتِ مطہرہ سے دور ہو چکے ہیں، یا پھر ہم اس دینِ مبین کے احکام سے سراسر غافل ہیں، یا دانستہ اپنی خواہشات کو ان پر فوقیت دیتے ہیں۔ کیا ایک بالغ اور باشعور عورت کو اپنی رضامندی سے نکاح کرنے کا حق اسلام نہیں دیتا؟
کیا ولی کو مرد و عورت دونوں کی رضا مندی لینا شرعی حکم نہیں؟
اگر بالفرض زنا ثابت ہو جائے، تو کیا اس کی سزا جاری کرنا ریاست کا حق ہے یا عام لوگوں کا؟
کیا ایک مسلمان گھرانے کے لیے قبائلی رسم و رواج کی پیروی ضروری ہے یا شریعتِ محمدی کی؟
اسلام ان تمام سوالات کا واضح، منصفانہ اور قابلِ عمل جواب دیتا ہے۔ مگر جب شریعت کو نظرانداز کر کے جاہلانہ رسوم و رواج کو مقدم کیا جاتا ہے، تو انجام یہی ہوتا ہے: ظلم، قتل، جہالت اور خدا کی ناراضی۔ لہٰذا ہمیں بطور امتِ مسلمہ اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم واقعی شریعتِ اسلامیہ کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا چاہتے ہیں، یا صرف سماج کی ظاہری خوشنودی کے لیے انسانیت کی قربانی دیتے رہیں گے؟ اگر ہم اس جیسے واقعات کو روکنا چاہتے ہیں، تو واحد راستہ یہی ہے کہ ہم اپنے رسم و رواج کو شریعت کے تابع کریں، نہ کہ شریعت کو سماج کے۔
تبصرہ لکھیے