ہوم << آدابِ قلم فروشی - حافظ محمد قاسم مغیرہ

آدابِ قلم فروشی - حافظ محمد قاسم مغیرہ

یہ تحریر قلم فروشی کے آداب سکھانے کے لیے لکھی جارہی ہے۔ جب دنیا میں سب کچھ سکھایا جارہا ہے، ہر موضوع پر تحقیق ہورہی ہے، تربیتی ورک شاپس اور سیشنز منعقد ہورہے ہیں تو آداب قلم فروشی پر بھی بات ہونی چاہیے۔ قلم فروشی کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ صحافی کے بجائے کسی سیاسی جماعت کا ترجمان بنا جائے اور خود کو غیر جذباتی رکھا جائے۔

طریق واردات کچھ یوں ہو کہ قلم فروشی کو "منطقی" اور "عقلی" انداز میں چھپا لیا جائے۔ لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، مجھ پر جس سیاسی جماعت کی حمایت کا الزام ہے اس کے سربراہ سے بس ایک سرسری سی ملاقات ہوئی تھی۔ اپنی قبیل کے لوگوں کے سوا سب کو جذباتی سمجھا جائے۔ تحریروں سے یہ تاثر دیا جائے کہ میں انتہائی غیر جذباتی انداز میں حالات کا جائزہ لے رہا ہوں اور یہ کہ سیاسی تجزیہ نگاری میں جذباتیت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس طرح ایک سیاسی جماعت کی حمایت کرتے ہوئے بھی غیر جانب داری اور غیر جذباتیت کا تاثر برقرار رہتا ہے۔

تاریخی حقائق کو جھٹلایا جائے۔ کسی سیاست دان کے ہاتھ پر بیعت کر لینے کے بعد ضروری ہے کہ اسے سچائی اور اصول پرستی کا مرکز و محور قرار دیا جائے۔ اگر کوئی یہ توجہ دلائے کہ آپ کے ممدوح کا ماضی بہت داغ دار ہے تو اسے فوراً کہہ دیں کہ حقائق مسخ نہ کرو ، تاریخ کا درست مطالعہ کرو۔ اگر ثبوت کے طور پر کوئی ویڈیو پیش کردے تو گھبرا کر لاجواب ہونے کے بجائے اس ویڈیو کو مصنوعی ذہانت کا کرشمہ قرار دے کر پتلی گلی سے نکل جائیں۔

سوال کو بدتمیزی قرار دیا جائے۔ جب کوئی سوال کر بیٹھے تو اسے بدتمیز ، گستاخ اور بڑوں کا نافرمان قرار دیں۔ کوئی کتنی ہی اچھل کود کرلے ، آپ کو سوال کا جواب کسی صورت نہیں دینا بل کہ الٹا سوال پوچھنے والے پر لٹھ لے کے چڑھ دوڑنا ہے۔ اسے یہ بتانا ہے کہ میں صحافت میں ریاضت کے سبب اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ اب میرے فکری حجرے میں ایک بھی روزن نہیں کہ جہاں سے متبادل خیال کا گزر ہوسکے، سب سوال بوسیدہ ہوچکے ہیں ، گھس پٹ گئے ہیں۔

کسی سیاسی جماعت کے سربراہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد نہ صرف اس سربراہ کے قصیدے لکھنے ہیں بل کہ اس کے بچوں کی خوشامد بھی کرنی ہے۔ یاد رہے کہ یہ سب اس طرح کیا جائے کہ پڑھنے والے کو غیر جذباتی سوچ اور عقلیت پسندی کا تاثر ملے۔ اگر کوئی سیاست دان بطل حریت اور جمہوریت کا کوہ الوند ہے تو لازم ہے کہ اس کے بچوں کو بھی استقامت کے استعار ے اور مزاحمت کی مشعلیں قرار دیا جائے۔ انہیں قافلہ حق کے ہراول دستے قرار دیا جائے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی سیاست دان اپنے بیانیے سے منحرف ہو جائے تو کیا کرنا ہے؟ سب سے پہلے تو گھبرانا بالکل بھی نہیں ہے۔ ہوانا کا سگار سلگانا کر ایک لمبا کش لینا ہے, پھر اس کے دھویں کے مرغولے بناتے ہوئے انتہائی دھیمے لہجے میں صرف ایک جملہ کہنا ہے " سیاست میں کچھ حتمی نہیں ہوتا۔" کھانا اپنے گھر سے نہیں کھانا بل کہ منتظر رہنا ہے کہ قصیدہ گوئی کا ثمر کب بار آور ہو اور کسی غاصب کی طرف سے دعوت طعام ملے۔ کھانے کی میز پر محترم شخصیت کے ساتھ تصویر بناکر اسے سوشل میڈیا پر ضرور شیئر کرنا ہے۔ کیپشن یہ ہونا چاہیے :

" جمہوریت کے ترکش کے آخری تیر، قافلہ حریت کے امیر ، جناح کے خوابوں کی تعبیر اور چاروں صوبوں کی زنجیر کے ساتھ ایک عشائیہ۔" غلط فہمی کے شکار ہر شخص کو یہ بھی بتانا ہے کہ " میں چالیس برس سے اس خاندان کے ساتھ کھڑا ہوں۔"

یہ تہیہ کرنا ہے کہ بیعت کرنے کے بعد اس سیاسی خاندان کے کسی فرد کی شان میں گستاخی نہیں ہونی چاہیے۔ تحریر اور تقریر میں ایک خفیف سا اشارہ بھی نہ ملے کہ محترم پر حالات کی خرابی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ تنقید؟ قطعاً نہیں۔ پھر کیا کرنا ہے؟ پھر یہ کرنا ہے کہ سماج کو ذمہ دار ٹھیرانا ہے۔ خون دل میں قلم ڈبو کر خامہ فرسائی کرنی ہے کہ یہ سماج ہی ایسا ہے۔ ترقی کا مستحق ہی نہیں ہے۔ جب کثرتِ استعمال سے یہ دلیل بوسیدہ ہو جائے تو حالات کی خرابی کی ذمہ داری گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر اپنے مخاطب کو خاموش کرا دیں۔قلم فروشی کا یہ درخشاں اصول ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب آپ کے ممدوح حسب سابق "سنگ آستاں" پر پیشانی رگڑنے کے لیے تیار ہو جائیں تو اسے یوٹرن نہیں بل کہ نادیدہ قوتوں کی مجبوری ، تاریخ کا جبر اور بیانیے کی فتح قرار دیجیے۔

قصیدہ نما کالموں یا کالم نما قصیدوں کی کتابی شکل میں اشاعت کا اہتمام ضرور کیجیے۔ تقریب رونمائی میں اپنی قبیل کے دیگر صحافیوں کو مدعو کرکے انجمن ستائشی باہمی کے تقاضے ضرور پورے کیجیے۔ سب سے اہم بات یہ کہ قصیدے میں رہ جانے والی کجیوں کی تلافی یوں کیجیے کہ تقریب رونمائی میں اپنے ممدوح کو سامنے بٹھائیے اور ان سے کہیے کہ یہ کتاب آپ کی شخصیت کا کماحقہ احاطہ نہیں کرسکی، کرکے بھی کیسے سکتی تھی۔ بھلا آپ کی خدمات ایک کتاب میں کس طرح سما سکتی ہیں۔کچھ انقلابی اشعار بھی ذہن نشین کرلیں۔ جب آپ کا ممدوح بدعنوانی کے کسی مقدمے میں گرفتار ہو جائے تو فوراً یہ شعر فیس بک پر لکھ دیں :

عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سے الجھ بیٹھا ہوں

جب موصوف کی بدعنوانی کا ذکر ہو تو کوشش کریں کہ بحث اصل نکتے سے ہٹ کر غیر متعلقہ باتوں کی طرف چلی جائے۔ پھر دھیمے لہجے میں سوال کریں کہ کیا فلاں ابن فلاں کا احتساب ہوگیا ہے؟ اگر اس کا احتساب نہیں ہوا تو میرے ممدوح کو کیوں ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے؟

اور جب آپ کا قائد ڈیل کرکے جیل سے باہر آجائے تو اسے جمہوریت کی فتح قرار دے کر اپنے شہر کے پریس کلب میں ایک تقریب کا اہتمام ضرور کیجیے۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ہمیشہ یہ تاثر دیجیے کہ شورش کاشمیری نے آپ کو لکھنا سکھایا ہے اور ظفر علی خان نے گھٹی دی ہے اور آپ بچپن سے ہی حق گو ہیں۔ سچ بولنے کی بنا پر سکول سے نکال دئیے گئے تھے اور میٹرک کا امتحان ایک پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دیا تھا، کالج اور یونیورسٹی میں بھی آپ غاصب قوتوں سے برسرِ پیکار رہے۔

آپ کا ماضی بے داغ ہے، آپ درخشاں روایات کے امین ہیں۔ آپ نے کبھی قلم کی حرمت کا سودا نہیں کیا۔ آزادی صحافت کے لیے جیلیں کاٹی ہیں۔ اسیری کے ایام کی روداد بھی چھپ چکی ہے۔ کس کی مجال ہے کہ مجھ سے کسی ظالم کے حق میں ایک لفظ بھی لکھوالے۔

Comments

Avatar photo

محمد قاسم مغیرہ

محمد قاسم مغیرہ پنجاب سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد سے انگریزی ادب اور یونیورسٹی آف گجرات سے سیاسیات کی ڈگری رکھتے ہیں۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست، ادب، مذہب اور تاریخ کے مطالعہ میں دلچسپی ہے۔

Click here to post a comment