ہوم << محبت فاتح عالم - ڈاکٹر محمد شافع صابر

محبت فاتح عالم - ڈاکٹر محمد شافع صابر

ایک بات سمجھ لیں،تعویز باندھ کر گلے میں لٹکا لیں، عورت محبت کر سکتی ہے،عورت کسی کو بھی پسند کر سکتی ہے،اور ہاں! وہ اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے۔ اگر یہ اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے،تو آپ جاہل ہیں۔ وہی گھٹیا ترین قدیم بلوچی روایات، وہی بغیرتوں کا ٹولہ،جسے جرگہ کہا جاتا ہے اور وہی ظلم میں پستی ہوئی عورت ،بلوچ عورت۔

عورت تھی،بلوچ تھی،شاید پڑھ لکھی بھی تھی۔ سب کچھ ٹھیک تھا،لیکن وہ ایک جرم کر بیٹھی۔ محبت کا کر بیٹھی، دوسرا جرم: محبت کی شادی کر لی ۔ بھلا پاکستانی اور اوپر سے بلوچ معاشرہ میں ایک عورت کی کیا مجال کہ وہ محبت کا جرم کرے۔ وہ پیدا ہوتی ہے تو اسے قدیم بلوچ روایات کے عین مطابق پالا جاتا ہے،وڈیرہ مائی باپ اور ماں باپ وڈیرہ کے غلام۔ اب اس بلوچ عورت کے سپنے یہاں سے ریزہ ریزہ ہونے شروع ہوتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہوئے بھی ان بلوچی روایات سے جان نہیں چھڑوا سکتی۔ وہ کوئی اور جرم سرزد کرتی تو شاید بچ جاتی،لیکن اس نے محبت کا جرم کیا۔ بھلا! نفرت زدہ معاشرے میں محبت کا کیا کام؟

نفرت والے معاشروں میں نفرت ہی پنپتی ہے،وہاں اگر کوئی محبت کرے گا تو جان سے جائے گا۔ محبت ہمشیہ زیادہ ہوتی ہے، نفرت کم ہوتی ہے،لیکن اسکی تپش زیادہ ہوتی ہے اسی لیے وہ محبت کو پنپنے نہیں دیتی ۔ وہ محبت کر بیٹھی، اسی سے شادی کی۔ بے غیرتوں کا ٹولہ (جرگہ بیٹھا). انہوں نے الزام لگایا،اس نے زنا کیا ہے۔ وہ اٹھی اور جرگہ کے سامنے بولی! جھوٹے الزام مت لگاؤ! میں نے کوئی زنا نہیں کیا، اپنی محبت سے شادی کی ہے۔ کوئی کسی کو بتلائے کہ محبت تو پاکیزہ ہوتی ہے، محبت تو نیک جزبہ ہے،محبت تو فاتح عالم ہے ۔ محبت میں کیسا گناہ،محبت میں کیا کسی سے ڈرنا۔

بے غیرت اور بزدل جرگے نے اپنا شاہی فرمان لکھوایا، کہ اس محبت زدہ عورت کو دونوں خاندانوں کے سامنے گولی مار کر قتل کر دیا جائے ۔ میں قتل کو شہید کہوں گا، وہ یہ شاہی فرمان سنکر گھبرائی نہیں،روئی نہیں ۔ جھکی نہیں ۔ اس نے رحم کی فریاد نا کی۔ وہ شان سے اٹھی، قران مجید کو سینے سے لگا کر مقتل کی طرف گئی۔ مردوں کا جم غفیر جمع تھا۔ ایک مرد آگے بڑھا۔ ہاتھ میں پستول تھا۔ کہتے ہیں وہ اسکا بھائی تھا ۔ بزدل بھائی سامنے سے فائر نا کر سکا، اس نے بھی پیچھے سے سر پر گولی ماری۔ محبت پھر ہار چکی تھی۔ نفرت جیت چکی تھی۔ اس کے آخری الفاظ شاید یہ تھے ،

"صرف سم أنا اجازت ء نمے
صرف گولی کی اجازت ہے تمہیں "

نفرت اور محبت کے مابین جنگ میں ہمیشہ ہار محبت کی ہوتی ہے۔ کیونکہ محبت کرنے والے معصوم ہوتے ہیں ۔ نفرت کے بیوپاری سخت دل ہوتے ہیں ۔ وہ جان لے لیتے ہیں،جبکہ محبت والے جان دے دیتے ہیں ۔ سنا تھا،کہ عورت محبت کی استاد ہے۔ عورت کا وجود ہی محبت ہے،وہ جب کسی سے محبت کر بیٹھتی ہے،تو چاہیے کچھ بھی ہو جائے وہ اس محبت سے پیچھے نہیں ہٹتی،اور بلوچستان میں آج یہ بات پھر سچ ثابت ہوئی۔واصف علی واصف رح نے کہا تھا کہ محبت کر جانا سچ نہیں ہے،محبت کا ہو جانا سچ ہے۔

محبت نا رنگ دیکھتی ہے نا زات پات اور نا ہی کوئی اونچ نیچ، یہ تو ایسا جزبہ ہے کہ بس ہوجاتی ہے۔پھر چاہے کوئی اندھی آئے،طوفان آئے،پوری دنیا مخالف ہو،وہ مل کر بھی اس جزبے کو ختم نہیں کر سکتے ۔ محبت کی یہی خوبی اسے ممتاز کرتی ہے کہ اسے پاکیزہ لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ نفرت کوئی بھی کر سکتا ہے،محبت ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ محبت تھوڑی ہو کر بھی حاوی رہتی ہے اور شاید اسی لیے اسے مات دینے کے لئے جرگہ بلانا پڑتا ہے۔