بانی ِپاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا فرمان ہے کہ:
”اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اسے ہم کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے.“
محققین نے تاریخ کی تحقیق کرکے یہ ثابت کیا ہواہے، کہ یہودی فلسطین میں صرف آٹھ سول سال رہے ہیں۔ جبکہ فلسطینی کم از کم دو ہزار سال سے فلسطین میں قیام پذیر رہے ہیں۔اسی پر فلسفی شاعر ڈاکٹر علامہ شیخ محمد اقبالؒ نے اس حقیقت کواپنے ایک شعر سے واضح کیا تھا فرماتے ہیں: ہے خاک فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
ہسپانیہ پر عرب مسلمانوں نے آٹھ سو سال شاندار طریقے سے حکومت کی تھی یہ اُس طرف اشارہ ہے۔اقوام متحدہ نے طے کیا ہواہے جس ملک پر جس کاقبضہ وہ اس کا ملک ہے۔ وہ کسی اورکے ملک پر دعویٰ نہیں کر سکتا۔ قوموں نے کئی ملکوں پر ہزاروں سال حکومتیں کی ہیں۔اگر وہ ان پر دعوے کرنا شروع کر دیں تو دنیا جنگوں میں پھنس جائے گی۔ اس لیے یہود کا گریٹر اسرائیل کا دعویٰ بھی ناجائز ہے۔ یہودی یہ بھی کہتے ہیں اللہ نے ہم سے فلسطین کا وعدہ کیا ہے۔ وہ وعدہ بنی اسرائیل سے تھا، جب بنی اسرائیل”مسلمان“ تھے۔ جس میں یہود و نصاریٰ دونوں شامل تھے۔ وہ مسلم اسرائیل سے تھا۔ تم تو کفر کر کے یہودی بن گئے۔
لہٰذا فلسطین کا وہ وعدہ مسلم اسرائیل سے تھا یہود سے وعدہ نہیں۔ یہودی فلسطینیوں کے ملک پر ناجائز قابض ہو گئے ہیں۔فلسطینی اُنہیں اپنے ملک سے نکالنے کے لیے سالوں سے لڑ رہے ہیں۔ فلسطین فلسطینیوں کاہے۔ یہودیوں کا نہیں۔ اُنہیں فلسطین سے نکل کر واپس اُن ہی ہی ملکوں میں چلے جانا ہے، جہاں سے وہ ہجرت کر کے فلسطین پر قابض ہو گئے ہیں۔اس کے لیے اقوام متحدہ نے اپنی کئی قراردادیں پاس کی ہوئی ہیں۔
جہاں تک بانی قائد اعظمؒ کا رتعلق ہے،تو آل انڈیا مسلم لیگ نے ہمیشہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اُٹھاتے رہے۔1933ء تا 1946ء تک اٹھاراہ قراردادیں منظور کی گئیں۔ جب 23 مارچ1940ء میں قراراداد لاہور منظور کی گئی۔اس کے ساتھ اس تاریخی موقعہ پر فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے قراداد منظور کی گئی تھی۔ صہیونت کی پشت پناہی کے لیے برطانیہ صف اوّل میں کھڑا تھا۔ اس لیے قائد اعظمؒ جہاں برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لیے جنگ لرڑرہے تھے۔
وہیں آزادی فلسطین کے لیے بھی مسلسل تگ ودو کر رہے تھے۔کیوں کہ ملت کا پاسبان ہونے کے ناتے پوری امت مسلمہ کاغم آپ کی رگ وپے میں سریت کیے ہوئے تھا۔ قائد اعظمؒ نے ان دس سالوں میں فلسطین کے لیے جو بیان دیے ان میں سے کچھ کو جہاں درج کرتے ہیں۔(بمبئی 11/ جولائی 1937ء کو قائد اعظمؒ صدر آل انڈیا )
مسلم لیگ نے ایک بیان میں کہا کہ:
"فلسطین پورے عربوں کے ساتھ بے حد شدید نا انصافی کرتی ہے اور اگر برطانوی پارلیمان نے اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر دی تو برطانوی قوم عہد شکنی کی مرتکب ہو گی."
قائد اعظمؒ نے فلسطین کانفرنس کے بارے میں مسٹر چمبر لین وزیر اعظم برطانیہ وزیر ہند اور مسٹر مالسک میکڈونلڈ وزیر نو آبادیات کو ٹیلی گرام بھیجا۔ٹیلیگرام میں لکھا:
"آل انڈیا مسلم لیگ برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ مسلم لیگ کی فلسطین کانفرنس میں میں نمائندگی دے اور”فلسطین قومی عرب مطالبات“ کو تسلیم کرے۔ مسلم ہند نہایت بے قراری کے ساتھ نتائج کا منتظر ہے۔ میں برقیہ کے ذریعہ سے سارے ہند میں پھیلے ہوئے جذبات کی شدت اور تاثرات کاکماحقہ اظہار نہیں کر سکتا۔ کانفرنس کی ناکامی کا سارے عالم اسلام میں تباہ کن اثر ہو گا اور سکین نتائج بر آمند ہونگے۔ میں بھروسہ کرتا ہوں کہ آپ اس مخلصانہ اپیل پر سنجیدگی کے ساتھ غور کریں گے۔"(دی سول اینڈ ملٹری گزٹ یکم فروری 1944ء)
29 نومبر 1947ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا۔14 /مئی 1948ء ڈیوڈ بن گورین نے اسرائیل کے ملک قیام کا اعلان کیا۔ ناجائز قبضہ کر کے ریاست قائم کرنے پر اگلے ہی روز چار ہمسایہ عرب ملکوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔مختلف جنگوں میں اسرائیل نے اردن شام،لبنان اور مصر کے علاقوں پرقبضہ کر لیا۔فلسطین کی باشنددوں کو فلسطین سے نکال دیا۔مغربی کنارے پر ایک غیرمسلم دروز محمود عباس کی برائے نام اسرائیلی پٹھو حکومت ہے۔ جبکہ غزہ کی پٹی جو پچیس میل لمبی اور دس میل چوڑی ہے اس پر حماس کی حکومت ہے۔ اس کے وزیر اعظم اسماعیل ہنیہ تھے۔
اسماعیل ہنیہ کو اس خاندان کے ستر افراد کے ساتھ اسرائیل نے شہید کر دیا۔ اسرائیل نے غزہ کو برسوں سے جیل میں تبدیل کیاہواہے۔ اسرائیل کی جیلوں میں ہزاروں فلسطینی قید ہیں۔ یحییٰ السنوار کو بیس سال سے قید کیا ہوا تھا۔ حماس نے اسرائیل کے فوج افسر کو قید کر لیا۔ اس کے بدلے یحییٰ کویرغمالی کے بدلے رہا کروایا۔یحییٰ السنوار نے حماس سے مل کر اپنے قیدیوں کو چھڑانے کے لیے اسرائیل پر 7/ اکتوبر 2023ء کو زمینی ہوائی بحری راستوں ے اچانک حملہ کر اسرائیل کاناقابل تسخیر ہونے کے تکبر توڑ دیا۔اس حملے میں چودہ سو اسرائیل فوجیوں سلولین کو جہنم واصل کیا۔دو سو پچاس کو یرغمالی بنا لیا۔ اپنی قیدی چھڑانے کے لیے اسرائیل سے مذاکرات کیے اورجنگ بندی ہوئی۔ حماس نے کچھ یرغمالی رہا کیے۔
کچھ فلسطینی قیدیوں کورہائی ملی۔مگر بد عہد یہودی نیتن نے چار ماہ معاہدہ توڑ کر حماس سے پر حملے شروع کر دیے۔ یہ جنگ اب بھی جاری ہے۔ اسرائیل اور ساری دنیا کے صلیبی غزہ پر چڑھ دوڑے ہیں۔غزہ کے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو ہر قسم کا اسلحہ دے رہا ہے۔اسی فی صد غزہ کو تباہ کر دیاہے۔ وحشت سفاکیت کی انتہاکر دی ہے۔فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں۔ ساری دنیا کے انصاف پسند وحشی اسرائیل کے خلاف اور غزہ کے حق میں اپنے اپنے ملکوں میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ اپنی حکومتوں پر پریشر ڈال رہے ہیں کہ غزہ کی نسل کشی بند کرائیں۔ مسلمان ملک بکری بنے بیٹھے ہیں۔ امریکی کے خوف سے فلسطینیوں کی عملی مدد نہیں کررہے۔
افریقہ کے ایک غیر مسلم ملک نے عالمی عدالت انصاف میں فلسطینیوں کی نسل کشی پر مقدمہ درج کیا۔ بین القوامی عدالت انصاف نے نیتن اور اس کے وزیر دفاع کو جنگی مجرم قرار دیا اور گرفتاری کا حکم جاری کیاہواہے۔ٹرمپ نے عدالت انصاف کے جن ججوں نے فیصلہ سنایا ان پر پابندی لگا دی۔اسرائیل حماس کے گوریلوں سے لڑنے کے بجائے عام آبادی پر 7/اکتوبر 2023ء سے بمباری، ہوائی حملے، ڈرون سے حملے،ٹینکوں سے گولہ باری، کیمیکل استعمال کرکے شہریوں کو ختم کر رہے ہیں۔ خوراک پانی ہر قسم کی امداد غزہ میں داخل نہیں ہونے دیتا۔ بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہاہے۔عارضی کیمپوں پر بھی بمباری کر کے لوگوں غزہ سے نکل جانے پر مجبور کر رہا ہے۔غزہ والے اللہ کے بھروسے غزہ چھوڑنے پر تیار نہیں۔
ایران اور اس کی پراسکیز حزب اللہ، یمن، حماس کی مدد کرتے رہے۔ حزب اللہ کو اسرائیل نے وحشت سے ختم کیا۔ اب اکیلا غریب ملک یمن جسے امریکہ برطانیہ اور اسرائیل نے بمباری کر تباہ کر دیا ہے مگر یمن اللہ کے بھروسے پر روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل پر سپر سانک میزائیلوں سے حملے کر رہاہے۔بحر احمر میں اسرائیل اور اس کے حماتیوں کے جہا ز ڈبو رہا ہے۔ کہتاہے جب تک اسرائیل غزہ سے فوجیں نہیں نکالے گا اس پر حملے کرتا رہوں گا۔دوبارہ جنگ کے چار ماہ کی خاموشی کے بعد حماس کی فوجوں کے کمانڈر ابو عبیدہ نے ویڈیو جاری کی کہ حماس اسرائل سے طویل جنگ کے لیے تیار ہے۔
اسرائیل فوجیوں کو جہنم واصل کرنا جاری رہے گا۔ جب تک مکمل جنگ بند کر کے اسرائیل غزہ سے نہیں نکلتا غزہ میں امداد آنے نہیں دیتا ہم لڑتے رہیں گے۔مسلم حکمران اپنے بھائیوں کو شہید ہوتے دیکھ رہے ہیں عملی مدد کے کے تیار نہیں۔ہمیں اُن سے شکوہ ہے۔ اللہ ضرور فلسطینیوں کو اُن کا وطن فلسطین گا۔ ان شاء اللہ
تبصرہ لکھیے