تاریخ انسانی کا ورق ورق کھنگال لیں، پوری تاریخ میں جانثاروں کا جو والہانہ پن عقیدت و احترام اور جان ہتھیلی پر ہر وقت بلکہ جان دینا بہت بڑی سعادت، یہ شان صرف اور صرف سرور دوجہاںﷺ کے حصے میں آئی، اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ آپﷺ جیسا نہ کوئی آیا اور نہ ہی کوئی آئے گا. آپﷺ جیسا تو دور آپ کے قدموں کو چھونے والے ذرات کی شان کو بھی کوئی نہیں پہنچ سکتا. آقائے دوجہاںﷺ کی محبت مالک نے ہر مسلمان کی تخلیق یا خمیر میں ودیعت کردی ہے، یہ ایسی چنگاری ہے کہ جیسے ہی آقاﷺ کی حرمت پر ہلکی سی بھی زد پڑتی ہے تو یہ آگ کے بھانبھڑ کا روپ دھا ر لیتی ہے اور پھر مخالفین کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے. کرہ ارض پر ڈیڑھ ارب مسلمان ہر وقت اپنی جان پیارے آقاﷺ پر قربان کرنے کو تیار رہتا ہے، اپنی جان کے علاوہ اپنی اولاد اور اپنا مال بھی خوشی خوشی وارنے کو تیار رہتا ہے. ہر مسلمان اپنی محبوب سے محبوب چیز آقائے دوجہاںﷺ پر نچھاور کرنا اپنی سعادت سمجھتا ہے.
سرور دوجہاںﷺ کی زندگی میں جب بھی کوئی نازک موقع آیا تو جانثاروں کی ایک فوج آپﷺ کے گرد جمع ہوئی اور سب پروانوں کی طرح شہادت کے رتبے پر فائز ہوتے گئے، اور قرآن مجید کی آیات کی عملی تفسیر بنتے گئے. ارشاد باری تعالی سورۃ المجادلہ میں ہے، تر جمہ :’’ تم نہ پائو گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ سے مخالفت کی، اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں، یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح کی مدد کی اور انہیں باغو ں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہ اللہ کی جماعت ہے، اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے ‘‘۔
سرور کو نینﷺ کا ہر صحابی ہر وقت آپﷺ پر اپنی قیمتی اور محبوب چیز قربان کرنے کو تیار رہتا تھا. حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ آقاﷺ اور اللہ تعالی کےلیے سب کچھ نچھاور کردوں. غزوہ بدر میں مشرکین مکہ کے ساتھ آپ ؓ کا والد عبداللہ بن جراح بھی جنگ لڑنے کے لیے آیا ہوا تھا، وہ آپ کے ایمان لا نے کی وجہ سے آپ ؓ سے بہت زیادہ نا راض بھی تھا، غصے کا زہر باپ میں اس قدر پھیل چکا تھا کہ دوران جنگ وہ بار بار حضرت ابوعبیدہ ؓ کو نشانا بناتا، حضرت ابوعبیدہ ؓ پہلے تو اُس کو نظرانداز کر تے رہے لیکن وہ پھر بھی باز نہ آیا تو جذبہ ایمانی اور عشقِ رسولﷺ سے معمور لہجے میں بو لے ’’ لائو اس دشمن خدا کا کام کر ہی ڈالوں، یہ کہا اور پھر ایسا کاری مہلک وار کیا کہ عبداللہ بن جراح کا خاتمہ کر دیا.‘‘ معرکہ بدر تاریخ انسانی کا بہت اہم اور فیصلہ کن موڑ تھا. میدان بدر کو دیکھ کر بوڑھا آسمان، ہوائیں اور فضائیں بھی حیران و پریشان تھیں کیونکہ قریش آپس میں ہی ایک دوسرے کے مقا بلے پر تھے. ایک طرف شاہ مدینہ کے متوالے تھے جبکہ دوسری طرف خدا کے دشمن، یہ آپس میں قریبی رشتے دار تھے، ایک طرف بیٹا تو دوسری طرف باپ، ایک طرف چچا تو دوسری طرف بھتیجا، ایک طرف سسر تو دوسری طرف داماد، بھائی کے سامنے اپنا سگا بھائی تھا، ایک طرف دشمن خدا اور تو دوسری طرف رسول کریم ﷺ کے پروانے جن کے سامنے سب قرابتیں اور رشتے ہیچ تھے۔
دوران جنگ جب یارغار حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنے ہی سگے بیٹے عبدالرحمن کو دیکھا تو غصے اور جوش سے اُس کی طرف قتل کر نے کے لیے بڑھے لیکن جب نبی رحمتﷺ نے اپنے محبوب دوست کو دیکھا تو روک دیا، اس طرح مجبورا حضرت ابوبکر صدیق ؓ رک گئے. بعد میں حضرت عبدالرحمن ؓ ایمان کے رنگ میں رنگے گئے تو ایک دن اپنے والد گرامی سے کہا کہ بابا جان! بدر کے دن آپ ؓ کئی مرتبہ میرے تیر کی زد میں آئے مگر میں نے اپنا ہاتھ روک لیا، قربان جائیں حضرت ابوبکر ؓ پر، بولے خدا کی قسم اگر مجھے رسول اللہﷺ نے روکا نہ ہوتا تو میں اپنا ہاتھ کبھی نہ روکتا۔
اِسی دن حضرت عمرفاروق ؓ نے جانثاری اور شجاعت کے بہت سارے کارنا مے دکھائے، دوران جنگ آقا دوجہاںﷺ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ڈٹے رہے، بہت سارے کفار کو جہنم رسید کیا، اللہ کے رسولﷺ کے عشق میں آپ ؓ کی دیوانگی اور جانثاری اُس دن پورے عروج پر تھی. آپ ؓ کے مقابلے پر جو بھی دوست عزیز اور رشتے دار آیا، اُس کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا. حضرت عمر فاروق ؓ کا ایک خاص خدمت گار مہج بھی اس جنگ میں کفار کی طرف سے آیا ہوا تھا، آپ ؓ کے سامنے آیا تو اُس کی خدمت اور وفاداری کو نظرانداز کرتے ہوئے اُس کا سر تن سے جدا کر دیا، اور پھر اہل جنگ نے حیرت سے دیکھا کہ آپؓ کا ماموں عاص بن ہشا م بن مغبرہ آپ ؓ کے سامنے آیا اور آپ ؓ اُس کو قتل کرنے کے لیے دیوانہ وار اُس کی طرف بڑھے تو ماموں حیران اور خوفزدہ ہو کر چلایا کہ میرے بھانجے کیا تو ہی مجھے قتل کرے گا تو مرادِ رسولﷺ نے فرمایا ’’ہاں اللہ اور رسول اللہﷺ کے دشمن میں ہی تیرا کام تمام کروں گا‘‘ تلوار کے تیز وار سے اُس کا سر تن سے جدا کر دیا اور کہا ’’ جو اللہ کا دشمن ہے وہ ہما را دشمن ہے.‘‘
حضرت عبیدہ بن الحارث ؓ رسول کریمﷺ کے چچا زاد بھائی حارث بن عبدالمطلب کے بیٹے تھے. ابتداء میں ہی اسلام کی دولت پائی، رسول اقدسﷺ سے بہت زیادہ محبت کر تے تھے، محبت دیوانگی کی حدوں کو چھوتی تھی، ہر وقت آقاﷺ پر قربان ہونے کو تیار رہتے تھے. غزوہ بدر میں جب ولید بن عقبہ نے مقابلے کے لیے کسی کو طلب کیا تو رسول اللہﷺ نے اُنہیں مقا بلے کے لیے بھیجا، یہ بہت بہادری اور شجاعت سے لڑے لیکن موقع پا کر ولید نے سخت وار کیا کہ اُن کا پیر کٹ گیا. حضرت علی ؓ اور حضرت حمزہ ؓ نے بڑھ کر ان کی مدد کی، ولید کا کام تمام کیا اور اُنہیں میدان جنگ سے اٹھا لائے، نبی رحمتﷺ نے انہیں حوصلہ دیا لیکن اُن کا جسم زخموں سے چور تھا، زندگی بچنے کی امید کم تھی لیکن زخمی حالت میں بھی چہرے پر عشق رسولﷺ کا نور پھیلا ہوا تھا، آپﷺ پر قربان ہو نے کا نشہ اُن کے وجود سے چھلک رہا تھا، سرتاج الانبیاءﷺ کے چہرہ مبارک کو عقیدت و احترام سے دیکھا اورعرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ چچا ابو طالب کہا کر تے تھے۔ ترجمہ : ہم محمدﷺ کی حفاظت کریں گے، یہاں تک کہ ان کے اردگرد ما ریں جائیں اور اپنے بچوں اور بیویوں سے غافل ہو جائیں گے، آج اس قول کا ان سے زیادہ مستحق میں ہوں۔ حضرت عبیدہ بن الحارث ؓ شدید زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے رسول دوجہاں ﷺ کے قدموں میں ہی شہا دت کے عظیم رتبے پر فائز ہوگئے اور عشق کی وہ عظیم قندیل روشن کر گئے کہ جس کی روشنی صدیوں تک اہل عشق کے سینوں کو روشنی ملتی رہے گی.
صحابہ کرام ؓ میں آپ ﷺ پر جان قربان کر نے کاجذبہ دیوانگی کی حدوں کو چھوتا تھا، صحابہ کرام ؓ ایک دوسرے سے ضد کر تے کہ مجھے یہ عظیم سعادت دی جائے، ہر کوئی اپنی جان فدا کرنا چاہتا تھا. حضرت سعد بن ختیمہ ؓ ایک نوجوان انصاری تھے، سروردوجہاںﷺ جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اور پھر معرکہ بدر پیش آیا تو گھر گھر میں میدان جنگ میں جانے اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کی باتیں ہونے لگیں، بھائی بھائی اور باپ بیٹے ایک دوسرے سے ضد کرنے لگے کہ میدان جنگ میں جائوں گا، آقاﷺ کی قربت اور جانثاری کا کوئی بھی موقع اہل مدینہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے بلکہ ایک دوسرے کی منت سماجت کرتے کہ مجھے یہ سعادت لینے دی جائے. جب بدر کے میدان کی تیاری شروع ہوئی تو حضرت سعد بن ختیمہ ؓ کے والد نے کہا کہ بیٹا ہم دونوں میں سے ایک شخص کا گھر پر رہنا ضروری ہے، اِس لیے تم گھر پر رہو، میں میدان جنگ میں جاتا ہوں، تم اہلخانہ اور گھر کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرو تو عشقِ رسولﷺ میں ڈوبے ہوئے حضرت سعد ؓ نے جواب دیا، ابا جان کیونکہ معاملہ رسول اللہﷺ کی ذات مبا رکہ کا ہے، آپﷺ پر قربان ہونے اور شہادت پانے کا مو قع ہے، اس لیے میں اس عظیم موقع کو کسی بھی صورت چھوڑنا نہیں چاہتا، اگر جنت کے علاوہ کسی اور چیز کی بات ہو تی تو ضرور آپ کو ترجیح دیتا، مجھے اللہ تعا لی سے امید ہے کہ مجھے آقا دوجہاںﷺ پر قربان ہونے اور شہادت کی نعمت ملے گی، اس لیے میں میدان بدر ہر صورت جانا چاہتا ہوں تو والد بولے، میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ یہ عظیم نعمت اور انعام کا موقع ہے، اس لیے میں اس کو نہیں چھوڑنا چاہتا، اب ہم دونوں چاہتے ہیں تو ہم آپس میں قرعہ ڈال لیتے ہیں، اللہ جس کے حق میں فیصلہ کر ے، قرعے میں حضرت سعد ؓ کا نام نکلا، میدان میں آپ اس بہادری اور شجاعت سے لڑے کہ ہر کوئی اش اش کر اٹھا اور آپ شہا دت کے رتبے پر فائز ہو کر قیامت تک کے لیے امر ہو گئے۔
تبصرہ لکھیے