جناب نواز شریف، محترم عمران خان اور قبلہ طاہر القادری صاحب۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جسے دوسروں سے بہت زیادہ مختلف قرار دیا جا سکے، طریق واردات کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تینوں ہی ایک جیسا مزاج رکھتے ہیں۔ مسیحا اور انقلابی ان میں سے کوئی بھی نہیں۔ گویا اب ہمارے پاس دو راستے ہیں۔ اول: ہم جمہوریت کے تسلسل سے اپنا ستیا ناس کروا لیں۔ دوم : ہم جمہوریت ڈی ریل کروا کے اپنا سوا ستیا ناس کروا لیں۔
ذرا قائدین انقلاب تو دیکھیے، عمران خان اور طاہر القادری۔ ذرا ان کے مربی تو دیکھیے، شیخ رشید اور چودھری شجاعت۔ ذرا ان کے رفقائے کار تو دیکھیے: جہانگیر ترین، اسد عمر، شاہ محمود قریشی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ایسے لوگ انقلاب لایا کرتے ہیں۔ عمران خان کی حالت یہ ہے جب بھی کلام کرتے ہیں زبان حال سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ رہنما جب مطالعے کی عادت سے محروم ہو اور کتاب اس کی تہذیب نہ کر سکے تو پھر باقی صرف عمران خان رہ جاتا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے وہ شیخ رشید سے متاثر پائے جاتے ہیں۔ اب تو ان کی گفتگو سے پتہ چلتا ہے وہ آداب گفتگو کے بعض حوالوں میں ان سے متاثر بھی ہیں۔ عینی شاہد ہوں اور سارے دکھ کے ساتھ بتا رہا ہوں کہ بھری محفل میں سیاسی مخالفین کا ذکر وہ ان کے جسمانی عیب گنوا کر کرتے ہیں۔ مخالفین پر تنقید میں وہی عامیانہ انداز وہ اپنا چکے ہیں جو شیخ رشید جیسوں کا طرہ امتیاز ہے اور عمران خان کو زیب نہیں دیتا۔ نواز شریف عمرہ پر گئے تو ان پر تنقید شروع کر دی، یہ یاد نہ رہا کہ نواز شریف کا عمرہ پر جانا زیادہ معیوب تھا یا برطانیہ کے گراؤنڈ میں ذاتی جہاز والے نومولود انقلابی کے ساتھ بیٹھ کر میچ دیکھنا جسے اتنی حیا بھی نہیں کہ رمضان المبارک میں سر عام کھا رہا تھا اور قائد انقلاب کے پہلو میں بیٹھ کر کھا رہا تھا۔ نہ کھانے والے کو حیا آئی کہ ہوٹل سے کھا کر آ جاتا نہ قائد انقلاب کو خیال آیا کہ اسے سمجھا ہی دے۔ شاید خیال آیا ہو لیکن رئیس آدمی کی تجوری کے سائز کے خیال نے کچھ کہنے سے روک دیا ہو۔ جو لوگ ہماری مذہبی اور تہذیبی قدروں سے اس حد تک بے نیاز ہوں وہ یہاں انقلاب لائیں گے؟
ملک میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں اپنی جماعت میں آج تک جمہوریت نہیں لا سکے۔ پارٹی میں انتخابات کرانے کا کریڈٹ ہر وقت لینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن سیکرٹری جنرل کے منصب پر اسی جہانگیر ترین کو بغیر انتخابات کے لا کر بٹھا دیا۔ کے پی کے میں زبان زد عام ہے کہ حکومت بنی گالہ سے چل رہی ہے۔ پارٹی کے قائدین خود مجھے بتا چکے ہیں کہ انہوں نے کس طرح پارٹی انتخابات میں کامیابی کو یقینی بنایا۔ عمران خان کو بھی بتایا جا چکا ہے لیکن ایسوں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ پرانے رفقاء مسلسل کوڑے کی ٹوکری میں پھینکے جا رہے ہیں اور وہ نومولود انقلابی جن کی تجوریوں کے سائز بڑے ہیں راتوں رات معتبر ہوتے جا رہے ہیں۔ آدمی حیرت سے سر پکڑ لیتا ہے جب جاوید ہاشمی جیسوں کو نظرانداز کر کے عمران خان اسد عمر کی شان میں پوری غزل کہہ ڈالتے ہیں اور اس کا مطلع بھی یہ ہوتا ہے کہ اسد عمر اتنا امیر آدمی ہے اور مقطع بھی یہ ہوتا ہے کہ اسد عمر کی تجوری بہت بڑی ہے، وہ اتنا کما رہا تھا۔ کیا انقلابیوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں۔ ایک سفید پوش بتائیے جسے عمران کی قربت نصیب ہو سکی ہو۔ نہ خان اعظم خود کبھی اپنے حلقے کے عوام سے ملے ہیں نہ ہی اسد عمر کا دامن اس برائی سے آلودہ ہے۔ اسد عمر تو باقاعدہ حلقے کے لوگوں کی تضحیک کرتے ہیں۔ حادثاتی طور پر ایک نشست جیت گئے ہیں اور اب لہجہ احسن اقبال جیسا ہو گیا ہے۔ انقلابیوں کو خوب علم ہے، تجوری سلامت رہے عوامی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ قائد انقلاب کراچی سے بلا کر کسی بھی حلقے سے ٹکٹ دے دیں گے۔
نہ عمران خان کے پاس ڈھنگ کا کوئی پروگرام ہے نہ شیخ الاسلام بقلم خود کے پاس۔ ہاں انا کے بت دونوں کی آستینوں میں موجود ہیں اور بہت بڑے ہیں۔ شیخ رشید اور چودھری برادران اس ملک میں اقتدار کے ایوانوں میں بڑے کروفر کے ساتھ رہ چکے ہیں۔ وہ تب کوئی توپ نہیں چلا سکے تو اب کون سی توپ چلا لیں گے۔ عمران اور شیخ رشید مل کر جب قوم کو نوید انقلاب دیتے ہیں تو ایک نجی چینل پر چلنے والا ڈرامہ ’ بلبلے‘ یاد آ جاتا ہے۔ اس میں ’ مومو‘ کہتی ہے: چلو کمرے میں چل کر آرام کرتے ہیں تو محمود صاحب کہتے ہیں وہ جو ہم کمرے میں چل کر کریں گے وہ آرام ہو گا۔ لوگ اب حیرت سے انگلیاں منہ میں دبا کر کھڑے ہیں کہ عمران خان اور شیخ رشید مل کر جو کریں گے وہ انقلاب ہوگا۔
شیخ الاسلام صرف ایک مذہبی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طبقے کی بھی ایک مختصر سی پاکٹ ان کی بات سنتی ہے۔ ان سے کیا خاک انقلاب آئے گا۔ عمران کو سوچنا ہو گا کہ آج وہ اپنے وابستگان یا شیخ الاسلام بقلم خود کے مریدان با صفا سے مل کر نوا حکومت کا آملیٹ بناتے ہیں تو کل کلاں اگر عمران کی حکومت بن بھی گئی تو کیا یہی کام ن لیگ کے کارکن بھی نہیں کر سکتے۔ کیا جنون صرف تحریک انصاف کے پاس ہے اور باقیوں نے چوڑیاں پہن رکھی ہیں، لیکن یہ بہت آگے کی بات ہے. جان کی امان پاؤں تو عرض کروں کہ یہ سارا کھیل اگر کامیاب بھی ہوگا تو اس سے فائدہ حاصل کرنے والے کم از کم عمران خان نہیں ہوں گے۔ کوئی اور ہی ہوگا۔
لیکن اگر جمہوریت کا تسلسل رہتا ہے اور عمران خان کچھ کر گزرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو کیا اس سے کوئی خیر برآمد ہو نے کی توقع ہے؟ موجودہ حکومت کی بدترین پالیسیوں کے ہنگام اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ بٹ اور کشمیریوں کی چاندی ہے باقی کی قوم دہی کے ساتھ کلچہ کھا رہی ہے یا ان کی آنیاں جانیاں دیکھ رہی ہے۔ جن لوگوں کے جن اداروں کے ساتھ کاروباری مفادات وابستہ ہیں وہ ان اداروں کے مالک و مختار بنا دیے گئے ہیں۔ ایسے میں بجلی کہاں سے آئے؟ خواجہ آصف ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ بارش کی دعا کرو میں کچھ نہیں کروں گا۔ خواجہ صاحب ان کمپنیوں کے مفادات کو سوچیں جن میں وہ شیئر ہولڈر ہیں یا عوام کا سوچیں۔
ہمارے لیے فی الوقت کوئی راہ جنات نہیں۔ جمہوریت کے تسلسل میں بھی کوئی خیر نہیں اور اس کے ڈی ریل ہونے میں بھی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اچھی لگے یا بری، حقیقت مگر یہی ہے۔
تبصرہ لکھیے