ہم انسان عجیب و غریب فطرت کے مالک ہوتے ہیں اور ہمیشہ بہتر سے بہترین کی جستجو میں رہتے ہیں ـ ہر وقت اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ـ ایک کام کی تکمیل کے بعد دوسرا شروع کر دیتے ہیں ـ ایک مقصد پورا ہو جائے تو دوسرے کے لیے سرگرداں ہو جاتے ہیں پھر جو حاصل ہو جاتا ہے اس کی قدر نہیں کرتے جو نہیں ملتا اس کی تمنا میں مارے مارے پھرتے رہتے ہیں ـ
دراصل ہم میں ٹھہراؤ نہیں ہوتا اسی بے چین کیفیت کی وجہ سے بہت سارے ایسے لمحات آتے ہیں جہاں چھوٹی چھوٹی خوشیاں بانہیں پھیلائے ہمارا استقبال کرتی ہیں لیکن ہم بڑی خوشی کے انتظار میں ہوتے ہیں اور اُس چھوٹی خوشی سے لطف اندوز ہونا یکسر فراموش کر دیتے ہیں ـ پھر اسی جانے انجانے میں ناشکری کی حد پار کر دیتے ہیں ـ ہر شخص کے لیے کامیابی کی تعریف یا پیمانہ مختلف ہوتا ہے . اکثر لوگ شہرت' دولت' مرتبے یا کسی امتیازی کام کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں، حالانکہ منزل کی طرف اٹھایا گیا پہلا قدم ہی کامیابی گردانا جاتا ہے جو ہمیں ممتاز بناتا ہے.
بالکل اسی طرح ہر ایک کے دیکھنے کا زاویہ بھی منفرد ہوتا ہے کہ وہ حالات و واقعات کو کس نظر سے دیکھ رہا ہے. ان کا کیا اثر لے رہا ہے اور کیسے ان کے بارے میں سوچتا ہے ـ کچھ لوگ بڑی سے بڑی پریشانی میں بھی پرسکون رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا ارادہ ' صلاحیتیں ان کے مسائل سے کہیں بڑی ہیں اور وہ اپنی مضبوط قوتِ ارادی سے مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ـ زندگی ایک مسلسل سفر کا نام ہے اور اس میں کامیاب وہی ہوتے ہیں جو عمومی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں. دِکھنے میں عام ہوتے ہیں لیکن اپنی منفرد سوچ کی بدولت غیر معمولی بن جاتے ہیں کیونکہ وہ عام اور معمولی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرتے ہیں ـ
کچھ لوگ اپنی زندگی سے اکتائے ہوئے اور بے زار سے رہتے ہیں ہر کام ان کو بوجھ لگتا ہے ـ ان کے لیے زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بس زندگی کے دن پورے کر رہے ہوتے ہیں ـ وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو بھرپور زندگی گزارتے ہیں ' ہر کام میں خوشی کا پہلو تلاش کر لیتے ہیں ـ یہی وہ چھوٹا سا فرق ہے جو زندگی میں بڑی تبدیلی لے کر آتا ہے کیونکہ یہی معمولی سی عادت ان کو ایک معمولی انسان سے غیر معمولی بنا دیتی ہے ـ ہمارے اردگرد ایسی ان گنت نعمتیں موجود ہیں جو ہمیں مسرور اور شکرگزار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ـ اس کے لیےہمیں صرف اپنے دیکھنے کا زاویہ بدلنا ہو گا ـ
کچھ لوگ صبح اُٹھ کر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں کہ کیا مصیبت ہے پھر سے وہی معمولات ' وہی دفتر ' وہی گھر کے کام، لیکن وہیں کچھ لوگ خالق و مالکِ کائنات کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ایک نیا دن 'نئی زندگی نصیب ہوئی ـ دیکھا جائے تو ' صبح کی اجلی کرنیں کتنی بھلی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ وہ ایک نئی امید لے کر آتی ہیں کہ اندھیرے کے بعد ہی اجالا ہوتا ہے . صحت مند زندگی، سر پر چھت، گھر، محبت اور اپنائیت سے بھرپور رشتے، اپنے ہاتھ سے کیا ہوا ہر کام، بچوں کے چہروں پر منڈلاتی خوشی، پرندوں کی چہچہاہٹ، ماں باپ کا پیار، ان کا وجود ، بہن بھائیوں کا ساتھ، زندگی میں مخلص دوست کا ہونا، دل سے نکلی دعا، بارش کی بوندیں ، ہرے بھرے درخت، رنگ برنگے پھول، تنہائی کے کچھ خوبصورت پل' کتابوں کی مہک وغیرہ .
ہمارے اردگرد قدرت کی اتنی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو گنا تک نہیں کیا جا سکتا .پھر بھی ہم خوشی کی تلاش میں رہتے ہیں ـ کس قدر نادان ہیں ہم، جب ہمارے کسی ایک چھوٹے سے عمل سے کسی دوسرے کے چہرے پر خوشی یا مسکراہٹ آ جاتی ہے، وہی ہمارا کل سرمایہ بن جاتا ہے ، سمجھیں زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ـ
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ
" خوشی باہر سے نہیں آتی ـ یہ آپ کے اندر سے نکلتی ہے ـ اگر اندر خوشی کے چشمے نہ ہوں تو باہر کی کوئی چیز خوشی نہیں دے سکتی" ـ
اصل خوشی ہمیں عام سی باتوں سے ملتی ہے جبکہ ہم بڑی بڑی کامیابیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اُن چھوٹی خوشیوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں جو ہمارے اردگرد بکھری ہوئی ہیں بس اس غیر معمولی نظر کی بات ہے ـ غیر معمولی بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خود کو ' اپنی سوچ اور اپنے دیکھنے کے زاویے کو تبدیل کریں ـ معمولی باتوں ' مشکلات اور مسائل کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں بلکہ جو حاصل ہے اسے خوشی سے تسلیم کر لیں ـ زیادہ کی چاہت تھوڑی خوشی کی لذت اور اہمیت کو بھی ختم کر دیتی ہے ـ بعض اوقات ہم اپنی اونچی توقعات کی وجہ سے بھی موجودہ اور آنے والے خوشی کے لمحات کو برباد کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ہمارا موڈ خراب ہوتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی ناراض کر دیتے ہیں ' ان کا اور اپنا سکون برباد کر دیتے ہیں ـ
جبران نے سچ ہی کہا ہے کہ
" یہ زندگی آپ کو کیا دیتی ہے اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ آپ زندگی کو کیسے دیکھتے ہیں" ـ
غیر معمولی اور معمولی زندگی میں بس اتنا سا فرق ہے کہ ہمیں غیر معمولی خوشیاں ' معمولی چیزوں میں تلاش کرنی چاہئیے ـ اس کے لیے ہمیں بظاہر حقیر اور چھوٹی خوشیوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہئیے بلکہ ان سے لطف اندوز ہونا چاہئیے تاکہ زندگی میں حقیقی خوشی اور سکون حاصل ہو ـ جب ہم مطمئن اور اندر سے خوش ہوتے ہیں تبھی پر سکون رہ سکتے ہیں ـ دوسروں کی زندگیوں میں پیار' محبت اور مسکراہٹ بانٹنا معمولی انسان کو خاص اور غیر معمولی بنا دیتا ہے ـ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے چیزوں کو دیکھتے ہیں اور کس انداز میں آگے بڑھتے ہیں ـ
تبصرہ لکھیے