پشاور کے پرانے شہر کے دل میں، رحمان بابا چوک کے قریب ایک زنگ آلود بینچ کے پاس، ہر صبح ایک سرخ دوپٹہ ریلنگ سے بندھا ہوا لہراتا ہے. جیسے کسی نے جلدی میں چھوڑ دیا ہو اور پھر کبھی لوٹا نہ ہو۔اب وہ مدھم پڑ چکا ہے، سورج اور گرد نے اسے کئی بار چوم لیا ہے، مگر پھر بھی اس کی سرخی باقی ہےچمکدار، بے باک، جیسے وہ لڑکی جو کبھی اسے پہنتی تھی۔
کوئی اُسے ہٹانے کی جرأت نہیں کرتا۔ دکاندار، رکشہ والے، چائے والے سب نے اُسے دیکھا ہے۔ سب نے اُسے محسوس کیا ہے۔"کسی کی یاد ہوگی"کوئی کہتا ہے جب ہوا اسے اٹھاتی ہے۔ کسی کی یاد، کسی کا سایہ۔لیکن میں جانتا ہوں۔مجھے وہ یاد ہے۔
اس کا نام آمنہ تھا، اور وہ ہر جمعے کو اُس بینچ پر بیٹھتی تھی، یونیورسٹی جانے والی بس کا انتظار کرتے ہوئے۔ اُس کا سر بلند ہوتا، آنکھیں فیض اور پروین شاکر کی کتابوں میں گم۔ اُس کی آواز نرم، مگر پُراعتماد جیسے کسی نے اُسے خاموش رہنے کو کہا ہو، مگر وہ سوال کرنے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ہم نے کئی بار چائے کے کاغذی کپوں پر کہانیاں بانٹیں۔ وہ کہا کرتی تھی:
"میں ایسی چیزیں لکھنا چاہتی ہوں جو میرے بعد بھی زندہ رہیں۔"
اور اُس نے لکھا۔وہ اپنے خاندان میں یونیورسٹی جانے والی پہلی لڑکی تھی۔ اپنے محلے کی وہ واحد بیٹی جس نے صحافت کا خواب دیکھا۔ میں اُسے چپ چاپ سراہتا رہا۔میری ہمت اُس جتنی بلند کبھی نہ تھی۔پھر ایک دن، وہ نہیں آئی۔
چند دنوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں:
"لڑکی حد سے بڑھ رہی تھی..."
"کسی لڑکے سے بات کرتے دیکھی گئی..."
"انہوں نے چھپا دیا ہوگا کہیں۔۔۔ یا۔۔۔"
کوئی کھل کر کچھ نہیں کہتا۔ ہمارے معاشرے میں بدترین باتیں ہمیشہ خاموشی میں لپٹی ہوتی ہیں۔اُس کے والدین نے کہا وہ اسلام آباد چلی گئی ہے۔اُس کے دوستوں کو معلوم تھا کہ یہ سچ نہیں۔
اُس کا فون بند ہو گیا۔اُس کا کمرہ دنوں میں صاف کر دیا گیا۔مگر سرخ دوپٹہ وہیں رہ گیا۔کسی نے باندھا تھا. میں نہیں جانتا کون۔ شاید خود آمنہ نے۔ شاید کسی اور نے، جو اُس کی مٹائی گئی یاد کو برداشت نہ کر سکا۔کبھی کبھار میں دوبارہ اُس بینچ پر بیٹھتا ہوں۔چھوٹی بچیوں کو یونیفارم میں ہنستے کھیلتے دیکھتا ہوں۔ بوڑھی عورتوں کو دیکھتا ہوں جو ایک لمحے کے لیے دوپٹے کو دیکھتی ہیں، پھر نظریں پھیر لیتی ہیں۔
اور اُن خاموش لمحوں میں، مجھے اُس کی آواز سنائی دیتی ہے:
"خاموشی، غیر موجودگی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات یہ سب سے بلند چیخ ہوتی ہے۔" کوئی آمنہ کا ذکر نہیں کرتا۔
کہتے ہیں، "وہ تو کبھی تھی ہی نہیں۔"
مگر وہ تھی۔اُس نے مجھے بدلا۔ ہم سب کو بدلا۔ ایسا نشان چھوڑ گئی جو نہ غیبت سے مٹتا ہے، نہ شرم سے اور جب تک وہ سرخ دوپٹہ ہوا میں رقص کرتا ہے.....وہ یہیں ہے.
تبصرہ لکھیے