مجھے چند دن قبل ڈیرہ غازی خان کے کسی صاحب نے ای میل کی‘ ان کی دکھ بھری کہانی میں وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے لیے بے شمار سبق ہیں چنانچہ میں یہ ای میل میاں شہباز شریف کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کو ایسی صورتحال کے تدارک کے لیے چند تجاویز بھی پیش کروں گا‘ میاں شہباز شریف اگر ذرا سی توجہ دے دیں تو ہزاروں لاکھوں مجبوروں کا بھلا ہو جائے گا‘ آپ پہلے یہ ای میل ملاحظہ کریں۔
’’میں ڈی جی خان کی بزنس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں‘میں اپنی بیوی کو ڈیلیوری کے لیے ڈی جی خان کے سب سے بڑے اسپتال کئیر سینٹر لے گیا‘ رات ساڑھے نو بجے ڈیلیوری ہوئی‘ ڈاکٹروں نے بچے کو نرسری میں شفٹ کر دیا‘ ساڑھے بارہ بجے بتایا گیا بچے کے پھیپھڑے صحیح کام نہیں کر رہے‘ آپ اسے ملتان لے جائیں‘ میں بچے کو لے کر رات دو بجے سٹی اسپتال ملتان پہنچا ‘ انھوں نے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے معذرت کر لی‘ میں ایک اور پرائیویٹ اسپتال میڈی کئیر پہنچا وہاں بھی سینئر ڈاکٹر نہ ہونے کا بہانہ کر کے بچے کو ایڈمٹ کرنے سے انکار کر دیاگیا‘ میں اب سرکاری اسپتال چلڈرن کمپلیکس ملتان پہنچا‘ انھوں نے بھی’’ہاوس فل ہے‘ آپ نشتراسپتال چلے جائیں یہاں ایک بھی بچہ ایڈمٹ کرنے کی گنجائش نہیں ‘‘ کاجواب دے کر مجھے جواب دے دیا‘ میں نشتر کی چلڈرن وارڈ کی ایمرجنسی پہنچا ‘ انھوں نے بچہ داخل کر کے کہا’’ مسئلے کا حل سرونٹا انجکشن ہے ‘یہ وزن کے حساب سے لگتا ہے۔
آپ کے بچے کا وزن تین کلو ہے لہٰذا بچے کو تین انجکشن لگیں گے‘ فی انجکشن پندرہ ہزار روپے ہے‘‘۔میں انجکشن لینے چلا گیا‘ میں جب پینتالیس ہزار روپے کے تین انجکشن لے کر پہنچا تو ایک اور مصیبت سر پر آ گری‘ ڈاکٹر نے بتایا وینٹی لیٹر کے بغیر انجکشن نہیں لگ سکتا اور پنجاب کے تیسرے بڑے شہر کے ایشیا کے سب سے بڑے اسپتال میں وینٹی لیٹر نہیں تھا‘ میری جیب میں چالیس ہزار روپے تھے اور وینٹی لیٹر ڈھائی لاکھ روپے کا تھا‘ میں نے کرائے پر وینٹی لیٹر لینے کی تجویز دی ‘ ڈاکٹر نے جواب دیا‘ بھائی صبح ساڑھے پانچ بجے کون اٹھ کر کرائے پر وینٹی لیٹر دے گا‘ وینٹی لیٹر میڈی کئیر میں ہے‘ آپ میڈی کئیر رابطہ کر کے انھیں یہ گارنٹی دے دیں اگر انجکشن لگنے کے دوران بچہ فوت ہو گیا تو ذمے داری آپ کی ہوگی تو وہ آپ کا بچہ ایڈمٹ کر لیں گے‘ میں نے میڈی کئیر رابطہ کیا ‘ انھوں نے جواب دیا‘ آپ آ جائیں‘ میں ایمبولینس لینے گیا تو اسپتال نے پیچھے سے بچے کو یہ کہہ کر نرسری میں شفٹ کر دیا ہم بچہ زیادہ دیر ایمرجنسی میں نہیں رکھ سکتے‘ نرسری میں اے سی تو دور پنکھے بھی اتنے اونچے تھے کہ ہوا نہیں آ رہی تھی۔
میں جب ایمبولینس لے کراسپتال میں پہنچا تو بچہ قریب المرگ تھا‘ میری بہن اسے مصنوعی سانس دے رہی تھی‘ میں ایمبولینس سے آکسیجن کا سلنڈر نکال کے وارڈ میں پہنچا تو بچے کا انتقال ہو چکا تھا۔میںوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں‘میں ایک صاحب ثروت بزنس مین ہوں‘ میں جیب میں ایک لاکھ روپے ڈال کرگھر سے نکلا لیکن میں اپنے بچے کی زندگی نہیں بچا سکا تو دس بیس ہزار روپے ماہانہ لینے والے ملازمین کے بچوں کا کیا ہوتا ہوگا؟
میں مسلم لیگی ہوں لیکن میری ساری مسلم لیگیت اور میاں شہبازشریف کی ساری گڈ گورننس ڈھائی لاکھ روپے کے ایک سلنڈر نے نکال کے باہر کچرے میں پھینک دی ‘ میں میاں برادران سے پوچھنا چاہتا ہوں‘پچاس ارب روپے کی میٹرو کے شہر کے اسپتالوں میں ڈھائی لاکھ کے وینٹی لیٹر کیوں نہیں ہیں؟نہ جانے اب تک کتنے ننھے پھول مسلے جاچکے ہیں ‘ہمارے بچوں کو وینٹی لیٹر میسر نہیں ہیں ہم میاں صاحب کی میٹرو کا اچار ڈالیں گے؟خدارا میاں صاحبان سڑکیں نہیں اسپتال بنائیں‘ نجی اسپتال والوں کو ایمرجنسی کیسز لینے کا پابند بنائیں‘سرکاری اسپتال میں مفت ادویات اور اے سی کو یقینی بنائیں اور خدا را تحصیل نہیں تو ضلع کی سطح پر ایک معیاری اسپتال ضرور بنائیںورنہ آپ میرے جیسے بدنصیب لوگوں کی بددعاؤں کا شکار ہو جائیں گے‘‘۔
یہ داستان ایک تلخ حقیقت ہے‘ پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت واقعی بہت خراب ہے‘ آپ جوں ہی میٹرو سے اتر کر پنجاب کے کسی اسپتال یا سرکاری اسکول میں داخل ہوتے ہیں تو گڈ گورننس دہلیز پر ہی دم توڑ دیتی ہے مگر آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں پنجاب کے اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت دوسرے صوبوں سے کہیں بہتر ہے‘ عمران خان کے تبدیل شدہ صوبے میں دل کے امراض اور بچوں کا کوئی اسپتال نہیں چنانچہ دل کے تمام مریض اسلام آباد کے پمز یا پھر راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوتے ہیں جب کہ بیمار بچوں کے والدین سیدھے لاہور پہنچتے ہیں‘ آپ لاہور کے چلڈرن اسپتال کا ریکارڈ دیکھ لیجیے‘ آپ کو وہاں نصف سے زائد بچے خیبر پختونخواہ کے ملیں گے۔
بلوچستان کی صورتحال اس سے بھی دگر گوں ہے جب کہ سندھ کے اسپتالوں میں پانی اور بجلی تک موجود نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے ہم دوسرے صوبوں کی خراب کارکردگی کا کریڈٹ وزیراعلیٰ پنجاب کو نہیں دے سکتے‘ میاں شہباز شریف کو اسپتالوں اور اسکولوں کو بھی اتنی ہی توجہ دینی چاہیے جتنی توجہ یہ میٹرو اور اورنج ٹرین کو دے رہے ہیں‘ یہ پنجاب میں آٹھ سال سے حکمران ہیں‘ ان کی دوسری مدت اقتدار کے دو سال باقی ہیں‘ یہ دو سال بعد ملکی تاریخ میں دس سالہ وزارت اعلیٰ کا ریکارڈ قائم کر دیں گے لیکن اگر پنجاب کے اسپتال دس سال کی ریکارڈ مدت کے بعد بھی وینٹی لیٹر‘ آکسیجن‘ واش رومز‘ پانی‘ بجلی اور ایمرجنسی سے محروم رہتے ہیں تو پھر عوام کو میاں صاحب کے ریکارڈ کا کیا فائدہ ہوا؟ پنجاب کے لوگ میاں شہباز شریف کو کیوں یاد رکھیں؟ چنانچہ میری میاں شہباز شریف سے درخواست ہے آپ نے جتنی میٹروز بنانی تھیں آپ نے بنا لی ہیں‘ آپ اب اگلے دو سال اسپتالوں اور اسکولوں کے لیے وقف کر دیں‘ آپ اب پنجاب کے اسپتالوں اور اسکولوں کی حالت پر توجہ دیں۔
آپ اس سلسلے میں چند کام کر سکتے ہیں‘ آپ ہر تحصیل میں ایک ایک ایمرجنسی اسپتال بنا دیں‘ یہ اسپتال صرف ایمرجنسی مریضوں کا علاج کریں‘ مریض جوں ہی ایمرجنسی سے نکلے‘ ڈاکٹر اسے عام اسپتال میں شفٹ کر دیں‘ ایمرجنسی اسپتالوں میں بجلی سے لے کر ادویات تک تمام طبی سہولتیں دستیاب ہوں‘ ڈاکٹرز بھی موجود ہوں اور دس دس ایمبولینسز بھی‘ آپ تمام پرائیویٹ اسپتالوں کو پابند کر دیں یہ ایمرجنسی کے شکار کسی مریض کو انکار نہیں کریں گے‘ یہ پہلے مریض کو داخل کریں گے اور پھر کاغذی کارروائی کریں گے اور جو اسپتال اس کی خلاف ورزی کرے اسے بھاری جرمانہ عائد کر دیا جائے‘ آپ اسپتالوں کو تین اقسام میں تقسیم کر دیں‘ ہر قسم کے لیے ’’ایس او پی‘‘ بنائیں‘ آپ صوبے کے تمام اسپتالوں کو دو برسوں میں ان ’’ایس او پیز‘‘ کے برابر لے آئیں‘ آپ ہر ڈویژن میں بین الاقوامی سطح کا ایک اسپتال بنا دیں۔
اس اسپتال میں تمام شعبے موجود ہوں‘ اگر اس ڈویژن کا کوئی مریض علاج کے لیے دوسری ڈویژن جائے تو حکومت ڈویژنل ہیلتھ آفیسر کے خلاف کارروائی شروع کر دے‘ آپ تمام اضلاع میں انڈسٹریل سائیٹس کی طرز پر میڈیکل سائیٹس بھی بنا دیں‘ ضلع کا کوئی بھی مخیر شخص‘ کوئی بھی کاروباری خاندان اور کوئی بھی ڈاکٹر اس سائیٹ میں اسپتال یا کلینک بنانا چاہے تو حکومت اسے مفت زمین دے دے‘ یہ اسکیم مریضوں کا سفر کم کر دے گی‘ یہ علاج کے لیے پورے شہر میں خوار ہونے کے بجائے صرف ایک جگہ جائیں گے‘ حکومت بھی پورے شہر کے بجائے صرف ایک جگہ توجہ دے گی اور آخری مشورہ پنجاب 9 کروڑ لوگوں کا صوبہ ہے‘ یہ درست ہے حکومت ہر شخص اور ہر دفتر پر نظر نہیں رکھ سکتی لیکن آپ عوامی شکایات اور ان کے فوری تدارک کے لیے سسٹم تو بنا سکتے ہیں‘ پنجاب حکومت شکایت ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائیٹ بنائے۔
صوبے کے تمام لوگ اس ویب سائیٹ پر اپنی شکایت درج کرا سکیں‘ لوگ اپنی شکایت تحریر بھی کر سکیں‘ آڈیو بھی ریکارڈ کرا سکیں اور وڈیو پیغام بھی دے سکیں‘ حکومت کے تمام ادارے ویب سائیٹ کے ساتھ منسلک ہوں‘ یہ ادارے فوری طور پر شکایت کا ازالہ کریں‘ اداروں کی طرف سے ازالے کی وڈیو بھی سائیٹ پر لگائی جائے اور شکایت کنندہ کے اطمینان کا پیغام بھی‘ یہ ویب سائیٹ عوام‘ سرکاری اداروں اور حکومت تینوں کو آپس میں جوڑ دے گی‘ میرا خیال ہے اگر عوام کی شکایات میاں شہباز شریف تک پہنچ جائیں تو بھی نوے فیصد مسئلے حل ہو جائیں گے اور سوشل میڈیا آج کے دور میں حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کا شاندار ذریعہ ہے۔
یہ ذریعہ اگر موجود ہوتا تو آج ڈی جی خان کے اسپتالوں میں وینٹی لیٹرز پورے ہوتے اور بچے آکسیجن کی کمی سے نہ مر رہے ہوتے چنانچہ میرا مشورہ ہے وزیراعلیٰ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام سے رابطہ رکھیں اور روزانہ ہزاروں لوگوں کی دعائیں لیں ‘ عوام ہی وہ طاقت ہیں جو حکمرانوں کو حکمران بناتے ہیں‘یہ ہی حکمرانوں کو بچاتے ہیں‘ آپ اگر حکمران رہنا چاہتے ہیں تو عوام کو خوش رکھیں‘ عوام کی خوشی سے اللہ تعالیٰ خوش ہوگااور یہ حقیقت ہے جب اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تو اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کون کون آپ سے ناراض ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اور عوام آپ سے ناخوش ہیںتو آپ پوری دنیا کو خوش رکھ کر بھی حکمران نہیں رہ سکتے۔
تبصرہ لکھیے