بین الاقوامی سطح پر طاقت کے توازن میں تبدیلی کی ایک نئی لہر چل رہی ہے، جس میں مغرب کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے اتحاد ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک اہم اتحاد برکس ہے ۔ جس میں برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ اس اتحاد کا مقصد مغربی مالیاتی اداروں کے متبادل نظام قائم کرنا، ترقی پذیر ممالک کو مشترکہ پلیٹ فارم دینا، اور ایک کثیر قطبی دنیا کی تشکیل ہے۔
مگر حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف کے سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اور برکس نیو دیلوپمنٹ بنک کے نائب صدر پروفیسر پاؤلو نوگیرا بیتستا جونئیر نے برکس کی وحدت اور مقصدیت پر ایک سنگین سوال کھڑا کردیا ہے ، انہوں نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بھارت کے کردار پر نہایت سخت اور واضح تنقید کی ہے ، ان کا کہنا ہے میری نظر میں بھارت برکس کے لیئے ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے ۔ بعض لوگ تو اسے امریکہ اور اسرائیل کا ٹروجن ہارس بھی کہہ رہے ہیں. یہ الفاظ محض ایک ذاتی رائے نہیں، بلکہ اس گہرے تضاد کی نشاندہی کرتے ہیں جو برکس کے اندر موجود ہے ، ایک ایسا
تضاد جو اس اتحاد کی افادیت کو متاثر کر سکتا ہے.
پروفیسر پاؤلو نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی پر سخت سوالات اٹھائے، خاص طور پر فلسطین پر اسرائیلی مظالم اور ایران پر امریکی و اسرائیلی حملوں کے تناظر میں۔ ان کا کہنا تھا یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ مودی اسرائیل جیسے ملک کی حمایت کیسے کرسکتا ہے جو غزہ میں نسل کشی میں مصروف ہے اور عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہا ہے. انہوں نے مزید کہا کہ بھارتی عوام کیا محسوس کرتے ہوں گے جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی حکومت ایسی بین الاقوامی زیادتیوں پر خاموش ہے؟ کیا یہ خاموشی واقعی بھارت کے قومی مفاد کا حصہ ہے، یا یہ عالمی طاقتوں کو خوش رکھنے کی کوشش ہے؟
پروفیسر پاؤلو نے واضح کیا کہ بھارت کی چین سے دشمنی اور امریکہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت برکس کی سالمیت کے لیے خطرہ بن چکی ہے. بھارت بیک وقت دو مخالف اتحادوں میں سرگرم ہے وہ کہتے ہیں کہ امریکہ سے اپنے دفاعی معاہدوں اور خفیہ تعاون کی بدولت برکس میں ایک آزاد حیثیت نہیں رکھتا ہے،بھارت ایک طرف تو آئی ٹو یو ٹو اور کواڈ جیسے امریکی اتحادوں کا حصہ ہے جن کا واضح مقصد چین کا محاصرہ کرنا ہے تو دوسری طرف برکس کا بھی ممبر ہے ، یہ دوہر ی پالیسی برکس جیسے پلیٹ فارم کے اصولوں کے خلاف ہے ، برکس میں خود مختاری ، عالمی انصاف اور ترقی پزیر
ممالک کا اتحاد بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے.
پاکستان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ دہائیوں سے پاکستانی ریاستی اور عوامی سطح پر بھارت کی منافقانہ اور دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔اب جب ایک غیر پاکستانی اور عالمی سطح پر معتبر شخصیت اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے، تو پاکستان کا مؤقف مزید مستحکم ہو جاتا ہے۔بھارت کی اسرائیل نوازی، ایران کے خلاف خاموشی، اور چین کے خلاف محاذ آرائی یہ تمام اقدامات ایک ایسے ملک کی نشاندہی کرتے ہیں جو درحقیقت مغربی مفادات کا نمائندہ بن کر ابھرا ہے، نہ کہ جنوبی دنیا کے آزاد اور خودمختار بلاک کا حصہ۔ یہ سوال اب پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے. اگر برکس جیسے اتحاد کے اندر ایسے ممالک شامل ہوں جو خود مختاری کے بجائے مغربی عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنیں، تو پھر اس اتحاد کا مقصد ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔
پروفیسر پاؤلو کی تنقید نہ صرف ایک سفارتی و نظریاتی اختلاف کی نشاندہی ہے، بلکہ ایک بڑے جیو پولیٹیکل بحران کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے — ایک ایسا بحران جو مستقبل میں برکس کو تقسیم بھی کر سکتا ہے۔بطور پاکستانی، ہمیں عالمی تبدیلیوں کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنا ہوگا۔ بھارت جیسا ملک، جو ایک جانب ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کھڑا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب سامراجی قوتوں کے ساتھ سازباز کرتا ہے، ہمارے خطے کے لیے نہ صرف خطرناک ہے بلکہ عالمی انصاف کے تصورات کے لیے بھی زہرِ قاتل ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں مزید بصیرت پیدا کرے، اور ایسے عالمی اتحادوں میں مؤثر کردار ادا کرے جو واقعی انصاف، برابری اور خودمختاری کے اصولوں پر قائم ہوں۔
ٹروجن ہارس ایک قدیم یونانی افسانوی حکایت سے ماخوذ اصطلاح ہے، جو "ٹروئے کی جنگ سے منسوب ہے ۔ اس کہانی کا ذکر سب سے پہلے یونانی شاعر ہومر کی نظم "اوڈیسی” اور بعد ازاں "اینیڈ” میں بھی کیا گیا. جب یونانی فوج ٹرائے کے مضبوط قلعے کو کئی سال تک فتح نہ کر سکی، تو انہوں نے ایک اسمارٹ منصوبہ بنایا۔ انہوں نے لکڑی کا ایک بہت بڑا گھوڑا تیار کیا، جس کے اندر کچھ چُنے ہوئے سپاہی چھپا دیے گئے۔
پھر وہ گھوڑا ٹرائے کے دروازے پر چھوڑ کر باقی فوج کو واپس چلا گیا ظاہر کیا۔ٹروجن (یعنی ٹرائے کے باشندے) اسے جنگ کا تحفہ سمجھ کر شہر کے اندر لے آئے۔ رات کے وقت چھپے ہوئے سپاہی گھوڑے سے باہر نکلے، دروازے کھولے، اور یونانی فوج واپس آ کر شہر پر قابض ہو گئی۔آج "ٹروجن ہارس” ایک علامتی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتی ہے، جس کا مطلب ہےایسا دشمن یا ضرر رساں عنصر جو بظاہر دوست یا خیر…. خواہ نظر آتا ہے، مگر اندر سے نقصان پہنچانے کے لیے چھپا ہوتا ہے.
یہ اصطلاح سیاست، جنگ، حتیٰ کہ کمپیوٹر وائرسز” ٹروجن وائرس” کے لئیے بھی استعمال کی جاتی ہے. موجودہ بین القوامی سیاسی صورتحال میں جب کہا جاتا ہے کہ بھارت برکس میں ایک ٹروجن ہارس ہے ، تو اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ بظاہر برکس کا رکن ہے مگر درحقیقت وہ مغربی قوتوں کے ایجنڈے کو لیکر آگے بڑھ رہا ہے.



تبصرہ لکھیے