کھانا زیادہ کھانے کے پیچھے بہت سے اسباب ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ جو دوسروں کی بہت زیادہ کیئر کرتے ہوئے زندگی بسر کرتے رہے ہوں ، جن سے کسی کو ناں کہنا مشکل ہوتی ہے. ایسے لوگوں کے زیادہ کھانا کھانے کے پیچھے مجھے لگتا ہے کہ یہی مسئلہ ہوتا ہے ۔
جو بندہ دوسروں کی کیئر بلکہ اوور کیئر کرتا ہے اور اپنے نفس کی قربانی دینے کا عادی ہوتا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ اسے کھانا کھاتے ہوئے اس میں لاشعوری طور پر وہ بہت سارے لوگ دکھائی دیتے ہیں ، جنہوں نے اسے بویا ، بیچا ، خریدا ، پیسے لگائے اور سب سے بڑھ کر جس نے اسے پکایا اور پھر سامنے رکھا. یہ سب لوگوں کی لاشعوری کیئر اسے وہ کھانا کھاتے رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔ اسی طرح جیسے وہ دوسروں کو ناں نہیں کر پاتا ایسے ہی کھانے کو ناں کرنا بھی ایک مشکل گھڑی ہوتی ہے ۔ پھر کچھ احساسات کی ہی دنیا کے کچھ اندیشے ، تجربے ، دکھ اسے گھیر لیتے ہیں ۔
کہیں یہ کھانا ضائع نہ ہو جائے ، کتنی محنت سے بنا ہے بچے گا تو نعمت کی ناقدری ہو گی ، پلیٹ میں کھانا چھوڑنا تکبر سا لگتا ہے ، اپنی جسم کو اہمیت دینا مشکل لگتا ہے اور اگر کہیں کوئی بندہ اصرار کر رہا ہو کہ اور کھائیں . بیگم ، دوست یار تو پھر تو انہیں جواب دینا اور مشکل ہو جاتا ہے ۔ ایک اور عجیب سی فیلنگ ہیں جو شاید کافی پین فل ہوں۔ کھانا اگر بچپن میں بہت خوب صورت انداز اور حالات و کیفیات میں نہ کھایا اور پیش کیا گیا ہو تو کھانا کھانے سے تعلق بہت ڈسٹرب ہو جاتا ہے ۔
بعض لوگوں کی زندگی میں کھانا ابیوز ، بدتمیزی ، تذلیل ، بے عزتی ، ڈانٹ ڈپٹ ، اپنی ذات پر فوکس ، کمپییرزین جیسی اذیتوں میں خوشی کا سامان رہا ہے ۔۔ اسی لیے ان لمحات میں کھانا پیٹ بھرنے ، طاقت لینے ، انرجی ، وٹامنز ، فائبر کا سورس نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ڈوپامین ، فرار ، سکون اور خوشی کی بنیاد تھا ۔ اس لیے اسے کھانے کا کوئی ترتیب ، سلیقہ نہیں تھا ، بس جو ملے کھاؤ، کھاتے جاؤ ، جتنا کھا سکتے ہو کھاؤ ۔ اس چیز نے کھانے کا ایک پیٹرن ڈویلپ کیا ہوتا ہے
یا تو ہم بہت کھاتے ہیں یا ہلدی کھانے بالکل نہیں کھاتے ، ڈوپامین سے بھرپور چیزیں ہی اچھی لگتی ہیں ، یا پھر کھاتے ہوئے ہم لاشعوری طور پر اسی پین اور کیفیات میں چلے جاتے ہیں کہ جہاں کھانا کھانا ہی واحد راستہ رہا ہے ۔
اسی طرح زیادہ کھانا کھانے کی ایک اہم وجہ کھانے کا ایسے لوگوں کی طرف سے ملنا ہے کہ جو ہمیں اذیت دیتے رہے ہیں ۔ یہ بہت تکلیف دہ بات ہے کہ بچپن کی بہت ساری تکالیف کا تعلق خود گھر کی چار دیواری سے ہی ہے ۔ اگرچہ کہ گھر کے بڑے بزرگ بہت محبت کرنے والے ہوتے ہیں ، مگر علم کی کمی کی وجہ سے انہیں بچوں کے ساتھ ڈیل کرنا نہیں آتا ، یوں ڈانٹ ڈپٹ کی دنیا ، بڑوں کے آپس میں جھگڑنے کی دنیا میں بچے کو کھانے کے وقت جب کھانا ملتا ہے تو ۔۔ بچہ اسے باقی معاملات سے الگ نہیں کر پاتا ۔
جیسے وہ سکول جانے کے لیے خود کو بے بس اور مجبور محسوس کرتا ہے اسی طرح وہ کھانا کھانے پر بھی خود کو بے بس ہی محسوس کرتا ہے ۔ بچپن سے جوان ہونے والی یہ فیلنگز ، ایک مضبوط پیٹرن تشکیل دیتی ہیں ۔ اب جب ماں ، بیوی کہتی ہے کہ جی کھانا لگ گیا ہے تو مرد کھانے کا لفظ سنتے ہی خود کو ایک طرح کا بے بس محسوس کرتا ہے ، اسے ہر صورت کھانا ہی ہے ۔ کھانا نہ کھانا ہو تو آپ کو منہ سے بہت کچھ کہنا پڑتا ہے ، وجہ دینی ہوتی ہے ، پیٹ میں درد ہے ۔ پھر اگلا بندہ بھی اسے ایک سیریس مسئلہ لیتا ہے ۔
مشورہ اور ہمدردی کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی بتاتا ہے کہ فلاں بچے نے ، تمہارے ابا نے ، کھانا نہیں کھایا ۔ گویا بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہ کھانا چونکہ خوشی اور سرور کے لیے کھایا جاتا ہے ، اس لیے ہم اس پر اپنے گھر والوں کی اچھی خاصی محنت کرواتے ہیں ۔ صحیح سے بھنا ہوا ، تلا ہوا ، مرچ مصالحوں سے بھرا ہوا ہو ۔ یہ محنت جب کوئی ماں ، بیوی کرتی ہے تو اس کا صلہ یہی ہوتا ہے کہ اس کھانے کو اچھے سے کھا لیا جائے ۔ اسی لیے ہمارے کلچر میں روٹی سے ماں کی خوشبو آتی ہے ، محنت سے پکنے والے سالن جیسے ساگ وغیرہ سے رشتوں کا پیار ٹپکتا نظر آتا ہے ۔ ایسے میں کوئی کیسے اس پیار کو ٹھکرا سکتا ہے ۔
کھانے کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرائی میں دیکھنے کی ضرورت ہے ، یہ ہماری زندگی کا ایک نہایت اہم مقام ہے ۔ لوگ کھانے کے لیے موت قبول کر لیتے ہیں کھانا نہیں چھوڑتے ، شوگر بی پی کا مریض کھل کر مرضی کا کھاتا ہے۔ پرہیز نہیں کر پاتا ۔ یہ ایک سوچنے کا مقام ہے کہ آخر جہاں سے ہم نے زندگی لینی تھی وہاں سے ہم کیسے ، موٹاپا ، شوگر ، بی پی ، ہارٹ اٹیک ، فالج لیتے ہیں. اس کی وجہ بہت بہت پین فل ہو سکتی ہے مگر اس سے نکلنے کا یہی راستہ ہے کہ اس ٹاپک پر سوچا جائے ، شیئر کیا جائے ، تھیراپی لی جائے اور سب سے بڑھ کر اللہ سے دعا کی جائے ۔
آخر میں ایک عملی کام دیتا ہوں ، آپ کھانے کو روٹی ، ساگ ، گوشت کے خوبصورت ، نسلوں سے وراثت میں منتقل ہوتے ، محبت کے امین ناموں کو استعمال کرنا کم کر دیں ۔ اس کی جگہ ان کھانوں میں جو جو انرجی پائی جاتی ہے ، اسے بولیں ، روٹی مطلب کاربوہائیڈریٹ ، گوشت مطلب پروٹین ۔ یوں آپ کا ایموشنل تعلق آہستہ آہستہ بدلے گا اور آپ کھانے کو اس لئے کھائیں گے تا کہ صحت مند رہیں ، نا کہ اس لیے کہ اس کے ذریعے رشتوں کی محبت سے جڑیں!
تبصرہ لکھیے