ہوم << قصہ حسین علیہ السلام کے سر مبارک کا (4) - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قصہ حسین علیہ السلام کے سر مبارک کا (4) - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قسط نمبر4
"یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے ۔ جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔"

مورُخ ابن العرزق الفریقی نے لکھا ہے کہ “عسقلان کی شکست سے پہلے ہی بیسویں فاطمی خلیفہ الضافر باللّہ نے عسقلان کے حاکم سیف الملاکا تمیم کو حکم دیا کہ کسی بھی قیمت پر حضرت حسینؓ کے سر کو مصر منتقل کر دیا جائے ۔ حضرت حسینؓ کے سر والا تابوت زمین سے کھود کر نکالا گیا اور اکتیس اگست 1153 ء کو عسقلان کے لٹے پٹے بے گھر مسلمانوں کے ایک بڑے قافلے کے ساتھ حضرت حسینؓ کاسر بھی قاہرہ روانہ ہوگیا ۔

برییٹ مائیکل Brett Michael نے اپنی کتاب “ فاطمی سلطنت Fatimid Empire “ میں فاطمی تاریخ دان سیدی حسن بن اسد کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ
“ "When the Raas [head of] al Imam al Husain was taken out of the casket, in Ashkelon, drops of the fresh blood were visible on the Raas al Imam al Husain and the fragrance of Musk spread all over."

“جب عسقلان میں حضرت حسینؓ کا سر تابوت سے باہر نکالا گیا تو تازہ خون ٹپکنے لگا آور فضا میں ہر طرف مشک جیسی خوشبو پھیل گئی ۔ “المقریزی نے اپنی کتاب “ الخطاط والعصر “ اور ابن معیسر نے اپنی کتاب “ اخبار مصر “ میں لکھا ہے کہ “ دو ستمبر 1153ء کو استاد مقنون اور عسقلان کے قاضی قاضی محمد بن مسکین کی نگرانی میں حضرت حسینؓ کے سر کا قافلہ عسقلان کے مہاجر اور لٹے پُٹے مسلمانوں کے ساتھ قاہرہ پہنچا اور کسی شر پسندی کے خدشے کے پیش نظر انتہائی خفیہ طریقے سے زمین دوز سرنگ کے ذریعے راس الحسین کو”القصرالشرقی الکبیر” کے اس خاص الخاص زیر زمین حصے میں دفن کر دیا گیا جہاں پہلے ہی نویں خلیفہ سے لے کر بیسویں خلیفہ تک تیرہ فاطمی خلیفہ دفن تھے ۔

محل کے اس حصے کا نام “تربت زعفران “ ہے۔ اس محل کو بعد میں المشہد الحسین کا نام دیا گیا ۔ اس کے اوپری حصے پر حضور اکرم صلعم کی تبرکات اور حضرت علی کرم اللّہ وجہہ کے ہاتھ کا لکھا قرآن زیارت کے لئے رکھا ہے ۔ کوفی رسم الخط میں لکھا یہ قرآن 501 صفحات پر مشتمل ہے ۔ رسول اکرم کی تبرکات میں تانبے کی بنی سرمہ دانی اور وہ عصا بھی شامل ہے جو فتح مکہ کے وقت مکہ میں داخل ہوتے وقت آپ کے ہاتھ میں تھا ۔ اگلے سال 1154ء میں اس محل کے ساتھ ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی گئی جسے مسجد الإمام ٱلحُسين کہتے ہیں ۔ ابن جبیر نے 1182ء میں اس جگہ کی سیر کی اور وہ حضرت حسینؓ کے سر کے مقبرے کی شان وشوکت دیکھ کر مبہوت رہ گیا۔

اس نے اپنی کتاب “ رحلہ ابن جبیر” میں بیان کیا ہے کہ اس جگہ کی خوبصورتی ناقابل بیان اور یہاں آنے والے زائرین کی عقیدت ناقابل یقین ہے ۔ سر کی تدفین والی جگہ کے چاروں طرف ایک انتہائی شاندار چاندی کا جنگلا ہے جس پر بہت خوبصورت نقش و نگار بنائے گئے ہیں ۔ جس کے گرد ہروقت عقیدت مندوں کا ایک ہجوم رہتا ہے جس کے ہر شخص کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہے وہ اس جنگلے کو پیار سے چُھوتے ہیں چومتے ہیں اپنے کپڑے اس کے ساتھ رگڑتے ہیں اور اسے اپنی بازوؤں کے گھیرے میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ان کی حالت دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔

1171 ء میں صلاح الدین ایوبی نے آخری فاطمی خلیفہ العاضد لدين اللّہ کو معزول کر کے فاطمی خلافت کا خاتمہ کر دیا ۔ مصر میں صلاح الدین ایوبی کی سنی حکومت آگئی جس نے کبھی عاشقان حسین اور ان کے سر کے درمیان آنے کی کوشش نہ کی ۔ صلاح الدین کی ایوبی حکومت کے بعد مملوک آئے اور مملوکوں کے بعد پانچ سو سال مصر عثمانیوں کے زیر اثر رہا ۔ یہ سب سنی مسلک کے حکمران تھے ۔ لیکن حکومت میں یہ تبدیلی بھی کبھی عاشقان حسینؓ کے تعلق کو حسینؓ کے سر سے جدا نہ کر سکی ۔

یہ مسجد آج ہزار سال گزرنے کے بعد بھی مصر کی مقدس ترین مذہبی زیارت گاہ ہے اور لاکھوں عقیدت مند حسینؓ سے محبت کرنے والے کیا سُنی اور کیا شیع سب یہاں اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرنے آتے ہیں ۔ آج بھی ہر سال محرم میں یہاں میلہ لگتا ہے ۔ اور کربلا کی یاد میں حضرت حسینؓ کی شہادت پر ماتم برپا ہوتا ہے ۔ سٹیفینی مولڈر Stephenie Moulder نے مصر عراق ایران لبنان اور ترکی کے چالیس سے زیادہ مقبروں کی سیر کی اور وہ اپنی کتاب “ Shrines “ میں بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہے کہ

“ میں جہاں بھی گئی سُنی اور شیع سب کو ان مقبروں سے ایک جیسی محبت میں گرفتار دیکھا ۔ لیکن عقیدت اور محبت کا جو عالم میں حضرت حسینؓ کے سر والے مقبرے میں دیکھا وہ بیان سے باہر ہے ۔ “1153 ء میں عسقلان پر صلیبیوں کاقبضہ ہوگیا . لیکن انہوں نے الجور میں موجود مشہد حسین کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ۔ یہ جگہ بدستور اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ موجود رہی اور حسین کے پروانوں کے لئے جائے عقیدت بنی رہی ۔ اب راس الحسین کی جگہ بدر الجمالی کا بنوایا ہوا منبر زائرین کی نگاہوں اور عقیدتوں کا مرکز بن گیا تھا جو اب منبر حسینی کہلاتا تھا ۔

1174 ء کو الحواری نے عسقلان کی سیر کی اس نے اپنے سفر نامے میں عسقلان کی کچھ اس طرح منظر کشی کی ۔
“ ساحلی شہر عسقلان حضرت ابراہیم کے کنوئیں اپنے انتہائی مضبوط اور اونچے قلعے اور مشہد راس الحسین کے لئے مشہور ہے لیکن مسلمان 1154ء میں حسینؓ کے سر کو یہاں سے نکال کر قاہرہ لے گئے ہیں “۔1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے جنگ حصین میں فتح کے بعد یروشلم اور عسقلان پر بھی قبضہ کر لیا ۔ یروشلم کی فتح کی خبر جب یورپ پہنچی تو وہاں کہرام مچ گیا ۔ بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا۔ پورے یورپ میں طبل جنگ بج گیا ۔ یہ تیسری صلیبی جنگ کا آغاز تھا ۔ نارگیٹ Norgate نے بیان کیا ہے کہ

“صلاح الدین کے ہاتھوں یروشلم کی فتح اہل یورپ پر بجلی بن کر گری ۔ ہر طرف کہرام مچ گیا ۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گلی گلی گھوم کر عوام کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔ اور مقدس جنگ کے لئے تیار کیا ۔ اہل یورپ نے اتنی تیاری پہلے کبھی نہ کی تھی اور جذبات اس حد تک بھڑک اٹھے تھے کہ یورپ کا رہنے والا ہر شخص اس جنگ میں شرکت کا متمنی تھا ۔”

جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پر چڑھ دوڑے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد 6 لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسابھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا. مسیحی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج اس سے پہلے کبھی فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور فلسطین پہنچ کر عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا ۔ سلطان صلاح الدین تن تنہا عکہ کا دفاع نہ کر سکا ۔گرچہ اس نے عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے مگر صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا- اور نہ عباسی خلافت اس قابل تھی کہ اصلاح الدین کی مدد کو پہنچ سکتی ۔

اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو مسیحیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 مسیحی قیدیوں کی واپسی کے ساتھ تمام محصورین کی جان ومال کے ساتھ شہر سے رخصتی کی شرائط کے ساتھ مسلمانوں نے ہتھیار ڈال کر شہر صلیبیوں کے حوالے کر دیا لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصور اہل شہر کو قتل کر دیا۔

عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی سب سے مضبوط بندرگاہ اور قلعے عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک صلیبیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اسے ڈر تھا کہ اگر صلیبی عسقلان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کے لئے یروشلم اور مصر کا دفاع بھی مشکل ہو جائے گا ۔

چنانچہ1191ء میں یروشلم واپس جاتے ہوئے سلطان نے عسقلان کا شہر اور فوجی قلعہ خود اپنے ہاتھوں تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انھیں اینٹوں کے ڈھیر اور جلے ہوئے ملبے کے سوا کچھ نہ ملا ۔ سلطان کے اس اقدام کی زیادہ تر تاریخ نویسوں نے تعریف کی ہے کہ اس کے اس اقدام سے یروشلم اور مصر صلیبیوں کی پہنچ سے دور ہوگیا اگر وہ ایسا نہ کرتا تو عسقلان پرقبضے کے بعد یروشلم کا دوبارہ صلیبیوں کے ہاتھ جانا بس دنوں کی بات تھی ۔ عسقلان چھوڑتے وقت سلطان مشہد حسین میں موجود منبر حسینی اپنے ساتھ لے آیا اور لا کر اسے الخلیل ( ہیبرون ) شہر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مسجد رکھ دیا ۔ ہیبرون یروشلم سے فقط دس کلومیٹر دور ہے ۔

اور یوں یہ بے مثال تاریخی ورثہ صلیبیوں کی پہنچ سے دور ہو گیا۔ مسجد خلیل مسلمانوں کے لئے مسجد حرم ، مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی کے بعد چوتھا مقدس ترین مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے پورے کنبے کے ساتھ دفن ہیں۔ یہ منبر آج تک اس مسجد میں موجود ہے ۔ اور اب منبر ابراہیمی کہلاتا ہے . صندل کی لکڑی ، ہاتھی دانت ، سونے اور چاندی کے ہزاروں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے بنا یہ منبر خوبصورتی اور دلکشی میں اپنی مثال آپ ہے ۔ اور مسلمانوں کے دور عروج کا نادر ترین اور اپنی نوعیت کا واحد بے مثال نمونہ ہے ۔ جو امتداد زمانہ کی گرفت سے بچ گیا ہے اور آج تیرہ سو سال گزرنے کے بعد بھی اس کی آب وتاب اور خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے ۔

یہ صرف ایک منبر ہی نہیں بلکہ تاریخ کا وہ پورا باب ہے جس پر یروشلم اور فلسطین پر بدالجمالی کی فتح سے لے کر حضرت حسین علیہ السلام کے سر کی معجزانہ دریافت ، مشہد حسین اور اس منبر کی تعمیر کی ساری داستان رقم ہے ۔ یہ منبر عسقلان کی صلیبیوں کے ہاتھوں فتح اور پھر عسقلان کی اصلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں تباہی کا گواہ بھی ہے۔ اس منبر اور مسجد الخلیل کا تفصیلی ذکر میری اس کتاب کے ایک علیحدہ باب میں موجود ہے ۔ایسا ہی ایک منبر سلطان صلاح الدین نےفتح یروشلم کے موقع پر مسجد اقصٰی میں رکھوایا تھا جو نور الدین زنگی نے اس مسجد کے لئے بنوایا تھا لیکن بدقسمتی سے 1967ء میں ایک آسڑیلوی یہودی نے اسے نذر آتش کر دیا تھا۔

سلطان صلاح الدین ایوبی عسقلان کے قلعے کو نیست ونابود کرنے کے بعد یروشلم واپس لوٹ گیا ۔لیکن عسقلان شہر ایک بار پھر صلیبیوں کے قبضے میں چلا گیا ۔ رچرڈ شیر دل نے عسقلان کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے تباہ شدہ قلعے کے کھنڈرات پر ایک نیا قلعہ تعمیر کر لیا۔اومان Oman نے اپنی کتاب Tactics of the Crusades: Battles of Arsouf and Jaffa (Volume I میں لکھا ہے کہ “اس دوران میں سلطان نے یروشلم کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں صلح کا معاہدہ ہوا۔ اس جنگ میں عکہ اور جافا کے سوا صلیبیوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا .

رچرڈ اور فلپ بے نامراد یورپ واپس لوٹ گئے ۔ جرمنی کا بادشاہ فریڈریک باربروسا جنگ کے آغاز میں ہی یروشلم پہنچنے سے پہلے ترکی کے ایک دریا میں ڈوب کر مر گیا تھا ۔ تقریباً چھ لاکھ مسیحی اس جنگ میں کام آئے ۔ یوں تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ 1247ء میں آخری مضبوط ایوبی حکمران الصالح ایوب نے صلیبیوں کو شکست دے کر عسقلان کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ۔ الصالع ایوب نے ترک غلاموں کی ایک بڑی فوج بھرتی کر رکھی تھی جو مملوک کہلاتے تھے ۔ اس کی زندگی میں ہی مملوک اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ الصالح کی موت کے بعد وہ مصر کی حکومت پر قابض ہو گئے اور یوں مصر سے ایوبی خاندان کی حکومت ختم ہو گئی اور 1250 ء کو مصر میں مملوک حکومت کا آغاز ہوگیا ۔

پانچ ہزار سالہ پرانے عسقلان کی کہانی 1270 ء میں ہمیشہ کے لئے اس وقت ختم ہو گئی جب چوتھے مملوک سلطان بیبرس نے بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر موجود صلیبیوں کے تمام ساحلی قلعے فتح کر لئے اور آئندہ کے لئے صلیبی حملوں کا اس طرح سدباب کیا کہ عسقلان سمیت تمام ساحلی قلعے تباہ کر دئیے اور پرانے عسقلان کی جگہ ساحل سے چار کلو میٹر اندر ایک نیا شہر بسایا جس کا نام مجدل عسقلان تھا ۔ اور یوں وہ عسقلان ہمیشہ کے لئے تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گیا جو کبھی اپنے مضبوط قلعے اور بڑے فوجی مستقر کی وجہ سے یروشلم کا دروازہ کہلاتا تھا ۔ عسقلان کا قلعۂ امتداد زمانہ کی نذر ہو گیا ۔ عسقلان شہر کی جگہ مجدل نے لے لی ۔ لیکن مشہد حسینؓ آباد رہا ۔

عسقلان کی فوجی اور سڑیرٹجیک حثیت اس کا قلعہ تباہ ہونے بعد ختم ہو گئی تھی لیکن مشہد حسین کی مذہبی اور روحانی حثیت سواس حسینؓ اور منبر حسینؓ چلے جانے کے بعد بھی قائم رہی ۔ دنیا بھر سے لوگ اسی طرح اس مقام کی زیارت کو آتے رہے ۔ کیونکہ عقیدت مندوں کے نزدیک اس جگہ میں نواسہ رسول کی خوشبو بسی تھی ۔ ہر سال محرم کے دنوں میں یہاں میلہ لگتا ہزاروں پروانے اپنی عقیدت و محبت کے پھول چڑھانے اس مزار پر آتے رہے جہاں اسماعیلی شعیوں کی روایات کے مطابق اڑھائی سوسال تک حضرت حسین علیہ السلام کاسر دفن رہا تھا ۔مراکشی سیاح محمد العبدری الحاحی نے 1290 ء میں فلسطین کا سفر کیا اور اس نے اپنی کتاب “الرحلة المغربية “ میں بیان کیا ہے کہ “مشہد الحسین اس خطے کی اور عسقلان کی سب سے شاندار اور بڑی عمارت تھی ۔ “

ابن بطوطہ نے 1326ء میں فلسطین کے بیس سے زیادہ شہروں کا سفر کیا اس نے کئی روز تک عسقلان میں قیام کیا ۔ اس نے بھی اپنی کتاب میں مسجد خلیل، عسقلان اور مشہد حسین کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے ۔ اس نے خاص طور پر اس منبر کی بہت تعریف کی ہے جو بدرالجمالی نے بنوایا تھا ۔ اس کے سفر نامے میں مشہد راس الحسین ایک بڑی اور خوبصورت مسجد کے عنوان سے ذکر ہوئی ہے جس کے ستون سنگ مرمر کے ہیں اور ایک ستون سرخ سنگ مرمر کی بنی ہوئی ہے۔ابن بطوطہ کی کتاب کا نام عجائب الاسفار فی غرائب الدیار ہے جسے “ رحلہ ابن بطوطہ “ بھی کہا جاتا ہے ۔ مشہور ترک سیاح اولیاء چلیبی Evliya Çelebi کو ترکی کا ابن بطوطہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس نے 1611ء اور 1682 ء کے دوران اپنی زندگی کے بیالس سال ساری دنیا کی سیر و سیاحت میں گزارے ۔

اس نے اپنے سفر کی یاد داشتوں کو اپنی فارسی کی کتاب “ سیاحت نامہ Seyāḥatnāme “ کی صورت میں قلم بند کیا ہے ۔ اس کے سفر نامے کو ترکی اور فارسی ادب میں بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ یہ دنیا کا سب سے لمبا سفر نامہ ہے جو آج بھی اپنی مکمل ترین شکل میں موجود ہے اس کی دس جلدیں ہیں۔ جو اپنی اصلی حالت میں توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہیں ۔ اولیاء چلیبی تین بار فلسطین آیا اور تینوں بار وہ مشہد حسین کی زیارت کے لئے پہنچا جس کاتذکرہ اس نے اپنے سفر نامے کی تیسری ، نویں اور دسویں جلد میں بڑے شاندار اور خوبصورت انداز میں کیا ہے ۔ مشہد حسین کی رونقیں عثمانی دور کے بعد انگریزوں کے دور حکومت میں بھی برقرار رہیں ۔

توفیق کنعان Tawfiq Canaan برٹش فلسطین کے دور کا ایک بہت مشہور ادیب ڈاکٹر اور جغرافیہ دان تھا اس نے فلسطین کی تاریخ جغرافیہ تہذیب وثقافت اور یہاں کے تاریخی اور مذہبی مقامات پر کئی کتابیں لکھیں ۔اس کی ایک کتاب (1927ء ) Mohammedan Saints and Sanctuaries in Palestine اس لحاظ سے ایک انتہائی مستند اور شاندار کتاب ہے جس میں اس نے فلسطین کے سارے تاریخی اور مذہبی اہمیت کے تمام مقامات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ۔مشہد حسین کے بارے میں وہ لکھتا ہے کہ

Seyidnâ el-Husên S.E of ed-Djorah (near Ascalon) a large Maqam has no tomb, but inside maqam a fragment of a pillar shows the place where the head of el-Husên was buried. The top of the pillar bears a green laffeh (turban] and below it there is a red cloth."
In a footnote he adds: "The large maqâm is on top of a hill about 20-30 minutes from the sea. There are no tombs or caves in the neighborhood. Two mulberry trees and a vineyard are his property."

مشہور فلسطینی محقق اور تاریخ دان عارف العارف نے 1943 میں “ تاریخ غزہ “ نام کی ایک کتاب لکھی جس کا ایک پورا باب فلسطینی مقامی تہواروں سے متعلق ہے ۔ جس میں وہ ایک مشہور سالانہ تہوار “ اربعات الایوب “ کے بارے میں لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ

یہ تہوار سمندر کے کنارے سے شروع ہوتا ہے ۔ لوگ سمندر میں اس امید کے ساتھ نہاتے ہیں کہ ان کی جلدی بیماریاں اسی طرح ٹھیک ہو جائیں گی جیسے اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب کو صحت دی تھی ۔ لوگ وادی نمل میں اکٹھے ہوتے ہیں پھر ناچتے گاتے شادیانے بجاتے سمندر پر پہنچتے ہیں ۔ جہاں سمندر کے ساحل پر عارضی رنگ برنگے خیموں کا ایک شہر آباد ہو جاتا ہے ایک رات وہاں قیام کے بعد وہ اسی طرح نعرے لگاتے بینرز اور جھنڈے لہراتے مذہبی گیت گاتے گھوڑوں گدھوں اور اونٹوں پر سوار مقام نبی حسین پر پہنچتے ہیں ۔ ہر سال یہ میلہ عیسائیوں کے ایسٹر کے دنوں میں منگل اور بدھ کو لگتا ہے ۔انہی دنوں ایسا ہی ایک میلہ مقام نبی موسٰی میں لگتا ہے جو یروشلم میں مسجد اقصیٰ سے شروع ہو کر مقام نبی موسیٰ پر ختم ہوتا ہے ۔

یہ میلہ صلاح الدین کے دور میں شروع ہوا اور اس کا مقصد عیسائیوں کے ایسٹر کا مقابلہ کرناتھا ۔” توفیق کنعان نے بھی کچھ ایسا ہی منظر اپنی کتاب میں پیش کیا ہے کہ “ غزہ ، الجورا ، مجدال اور اردگرد کے دیہاتی علاقوں کے لوگ ہر سال اپریل میں منگل کے دن اپنے بہترین کپڑے پہن کر وادی نمل میں اکٹھے ہوتے ہیں مقامی اور علاقائی مٹھائیاں اور پکوان پکاتے اور کھاتے ہیں پھر ایک جلوس کی شکل میں جھنڈے اور بینرز لہراتے گاتے بجاتے سمندر پر پہنچتے ہیں ۔ اپنی بیماریاں دور کرنے کے لئے سمندر کے پانی میں نہاتے ہیں ۔ شادی شدہ عورتیں منت مانگتی ہیں کہ اے سمندر اگر میں امید سے ہو گئی اور صاحب اولد بن گئی تو اگلے سال ایک بکری تیری نذر کروں گی ۔

اور جن عورتوں کی پچھلے سال کی منت پوری ہو جاتی ہے وہ بکری ذبح کر کے اسے پکا کر لوگوں میں بانٹ دیتی ہیں پھر یہ لوگ اسی طرح گاتے بجاتے ڈھول پیٹتے جلوس کی شکل میں بدھ کے دن عسقلان کی مشرقی دیوار پر بنے گرینڈ پلازہ سے ہوتے ہوئے چوٹی پر قائم مقام نبی حسین پر پہنچتے ہیں ۔ اور وہاں بھی ایک میلہ لگتا ہے ۔ لوگ حضرت حسین سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں ۔ اور وہاں منت کی بکریاں پکا کر دعوت اڑاتے ہیں اور شام کو اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں “۔ فلسطینی جرنلسٹ محمود صالح نے بھی 1947 میں ایک ایسے میلے میں شرکت کی اور اپنے تاثرات کچھ یوں قلمبند کئے ۔ “سمندر میں نہانے کے بعد جلوس مشہد حسین کی جانب روانہ ہوا جس کی قیادت مجدال ( عسقلان ) کی جامع مسجد کے امام کر رہے تھے جن کے ہاتھ میں لہراتے جھنڈے پر حسین بن علی لکھا تھا ۔

جلوس میں عورتیں بچے سکاؤٹس صوفی گانے بجانے والے ڈھول پیٹنے والے شامل تھے سب امام مسجد کی قیادت میں گاتے بجاتے یہودیوں اور انگریزوں کے خلاف نعرے لگاتے چار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے مشہد حسین کی طرف چلے ۔ جلوس کے شرکاء کا جوش وخروش اس وقت دیدنی تھا جب وہ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے ہر شخص فلک شگاف نعرے لگا رہاتھا ڈھول والے زور زور سے ڈھول بجا رہے تھے بلکل ایک جنگ کا سا منظر تھا ۔ 1947 ء میں انگریز فلسطین یہودیوں کے حوالے کرکے چلتے بنے فلسطین اسرائیل بن گیا ۔

1950ء میں اسرائیل کی کابینہ نے ایک قومی پالیسی کی منظوری دی جس کے تحت انہوں نے پورے فلسطین کے جن علاقوں میں یہودیوں کو بسانا تھا وہاں موجود مسلمانوں کی تمام زیارت گاہیں ، مساجد ، مزارات اور مذہبی اہمیت کی عمارتیں تباہ کرنے کا حکم دیا ۔ سو سے زیادہ مساجد اور مقامات تباہ کئے گئے ۔ اور اسی پالیسی کے تحت 17 جولائی 1950 ء کو موشے دیان نے جو اس علاقے کا فوجی کمانڈر تھا مقام نبی حسینؓ کو بم کے دھماکے سے اڑانے کا حکم دے دیا۔”
حضرت تمیم الاداری جو بڑے برگزیدہ صحابی رسول تھے ان کا مقبرہ بھی انہی دنوں اس پالیسی کا نشانہ بنا ۔

مائیکل پریس نے اپنی کتاب میں (2014). "Hussein's Head and Importance of Cultural Heritage" لکھا ہے ۔ کہ
"Masjid Al Mashhad al Husain" in Ashkelon dates back to the 11th century where the Head of Imam Husain was hidden. "Masjid Al Mashhad al Husain" was blown up deliberately as part of a broader operation that included at least two additional Masajid, one in Yavneh and the other in the nearby Mediterranean city of Ashdod. Muslim pilgrims, both Shia and Sunni, visited the site. After July 1950, there was nothing left for them to visit: that's when the Israel Defense Forces blew up "Masjid Al Mashhad al Husain".

“ Masjid al Mashhad al Husain, the holy site in Ashkelon, was leveled in 1950, but the devotees of Ahl al Bait did not forgot it.”

مقام نبی حسینؓ جو بارہ سو سال تک زمانے کی سرد وگرم برداشت کرتا رہا تھا ۔ جس نے اپنے اردگرد گردش ایام کے بدلتے کئی تیور دیکھے اور برداشت کئے تھے ۔ آخر ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹ گیا ۔ پھر دس سال تک الجور گاؤں کا یہ پہاڑی ٹیلہ مشہد حسین کا نوحہ خواں رہا ۔ 20 جولائی 1961 ء میں اسرائیلی حکومت نے اس ٹیلے پر ساؤتھ افریقن زائنوسٹ فیڈریشن کے تعاون سے 500 بیڈ کا ایک ہسپتال بنانے کا آغاز کیا جو چھ سال میں 1966ء کو مکمل ہوا۔ اس ہسپتال کا نام برازیلیائی یونیورسٹی میڈیکل سنٹر Barzilai University Medical Center ہے ۔

لیکن حضرت امام حسینؓ کے سر کی یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ مشہد حسینؓ کی بم سے تباہی اور اس کی جگہ ہسپتال اور میڈیکل یونیورسٹی کی تعمیر بھی اس جگہ کو عاشقان حسینؓ سے زیادہ دیر دور نہ رکھ سکی ۔ ہسپتال کی تعمیر کے کچھ دیر بعد ہسپتال کی انتظامیہ نے محسوس کیا کہ پرامن مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے گروپ ہسپتال کے صحن میں بنے ایک چھوٹے پتھر کے پاس آتے ہیں اور اپنی مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں جس پر 1970 میں انہوں نے محکمہ آثار قدیمہ سے رجوع کیا لیکن انہوں نے انکار کیا کہ ہسپتال کسی تاریخی جگہ پر بنایا گیا ہے ۔

مگر 1980 کو قاہرہ کے ایک ہوٹل میں ایک یہودی جرنلسٹ موشے ہنانل اور انڈین گجرات کے بوہری شعیہ کے گروپ کے لیڈر محمد برہان الدین کے درمیان ایک اتفاقی ملاقات ہوئی جس نے کہانی کو ایک نیا رخ دے دیا ۔ برہان الدین نے موشے ہنانل کو حضرت حسین کے سر کی داستان سنائی اور اس سے مدد چاہی کہ وہ بوہری فرقے کے لوگوں کی اسرائیل کے وزٹ میں تعاون کرے اور ہسپتال کے احاطے میں موجود اس جگہ پر ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے میں اس کی مدد کرے جہاں اس کے دعویٰ کے مطابق کبھی حضرت حسین کا سر دفن تھا ۔ برہان الدین اپنے والد کے ساتھ کئی دفعہ اس جگہ کی زیارت کر چکا تھا ۔

موشے ہنانل یہ داستان سن کر بہت متاثر ہوا . ہنانل ایک ٹورسٹ کمپنی بھی چلاتاتھا اور اسرائیل میں خاصا اثر ورسوخ رکھتا تھا ۔ اس نے اس کہانی کو اپنے کاروبار کو چمکانے اور فروغ دینے کے لئے استعمال کیا اور بوہری شعیہ حضرات بہت بڑی تعداد میں اسکی مدد سے عسقلان کی زیارت کے لئے آنے لگے ۔ 1990 کو برہان الدین نے اس جگہ ایک عبادت گاہ تعمیر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو موشے منانل نے اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے اسے اجازت دلوا دی ۔ لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے انہیں اس جگہ کوئی عمارت تعمیر کرنے کی اجازت تو نہ دی البتہ وہ اس مجوزہ جگہ پر ایک چبوترہ بنانے میں ضرور کامیاب ہو گئے جہاں برہان الدین کے خیال میں حضرت حسین کا سر دفن تھا ۔

یوں عظیم الشان مشہد حسین کی جگہ ۸ میٹر چوڑے اور ۸ میٹر لمبے سنگ مرمر کے ایک چبوترے نے لے لی جہاں ہرسال ہزاروں بوہرہ شعیہ زیارت کے لئے آتے ہیں ۔ اس چبوترے کی تعمیر کے لئے قیمتی سنگ مرمر آگرہ سے لایا گیا تھا ۔
2011 میں اسرائیلی محکمہ سیاحت اور کلچر نے عسقلان شہر کی سٹی کونسل کی مدد سے یہاں ایک بورڈ بھی نصب کروا دیا جس پر حضرت حسین کے سر کی داستان لکھی ہے لیکن اس میں بم کے دھماکے سے مشہد حسین کی تباہی کی کہانی کو گول کر دیا گیا ہے ۔ حضرت حسین علیہ السلام کے سر کی دلچسپ اور دردناک کہانی صرف نواسہ رسول کی بے بسی کی داستان نہیں فلسطین کے مسلمانوں کے عروج وزوال اور کسمپرسی کی داستان بھی ہے ۔اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی انہیں جدا نہیں کرسکتے ۔

اللّہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے اور حضرت امام حسینؓ کے سر کے ساتھ اصل میں کیا بیتی آپ اس کہانی پر یقین کریں یا نہ کریں لیکن حضرت حسین علیہ السلام کے سر کی یہ دکھی داستان فلسطین اور عسقلان کی تاریخ کا وہ حصہ ہے جو نواسہ رسول کی محبت و عشق میں کچھ اس طرح سے گندھا ہے کہ جسے نظر انداز کر کے اس خطے کی سیر کے لئے آنے والا کوئی بھی مسافر آگے نہیں بڑھ سکتا خواہ وہ ابن بطوطہ ہو یا مجھ جیسا تاریخ کا کوئی ادنا طالبعلم ۔ اور مرشد اقبال “رموز بیخودی “ میں کہتے ہیں .

شوکتِ شام و دور بغداد بیڑا
سطوت غرناطہ ہم از یاد بیڑا

شکوت شام و فرے بغداد رفتہ
سطوت غرناطہ ہم از یاد رفتہ

تارِ ما عز زخما راش لارزن ہنوز
تعزیہ تکبیر او امام ہنوز

تا مہ از زخمی اش لرزاں ہنوز
تذہ از تکبیر ایمان ہنوز

سیاسی لڑائیوں سے حاصل ہونے والی شاہانہ عظمت عارضی ہے۔ شام اور بغداد کے تختوں کی وہ شان و شوکت جو کبھی طاقتور بادشاہوں کے تخت نشین ہوا کرتی تھی اب نہیں رہی۔ کسی کو گراناڈا کی رونق یاد نہیں جو اسپین میں مسلم بادشاہت کا مرکز تھا۔ لیکن میرے اندر کا ہر ریشہ آج بھی کربلا میں حسینؓ کی پکار پر لبیک کہتا ہے اور ان کا پیغام ہمارے ایمان کی آبیاری کرتا رہتا ہے۔

ختم شد