ہمارے قریب ہی دوکان تھی. اچھا ہیئر ڈریسر تھا، لوگ دور دور سے اس کے پاس کٹنگ ، فیشل اور مساج کرانے آتے تھے ہنر مند ایسا کہ دیگیں بھی پکا لیتا تھا.یکدم غاٸب ہوا.
معلوم ہوا کے بٹوارے میں دوکان چلی گٸی ہے پھر اسے مختفلف جگہوں پہ کام کرتے دیکھا اور کچھ عرصے بعد پتہ چلا
کہ مر گیا ہے. گھر سے بدبو کے بھبھکے اٹھ.ے ہمسایوں نے دیوار پھلانگ کر دیکھا تو تقریبا سات دن پرانی گلی سڑی خستہ حال لاش کمرے میں موجود تھی جو مکمل کیڑوں سے ڈھکی ہوٸی تھی. پولیس اور ایدھی والوں کو اطلاع دی گٸی جنھوں نے اسے غسل کے بعد تدفین کے قابل بنایا.
خیر بتانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لاوارث نہیں تھا .بچے اس کے شہر سے باہر سسرال گئے ہوئے تھے لیکن اسی علاقے میں اس کے عزیز رشتہ دار ، بھاٸی وغیرہ رہتے تھے لیکن کسی نے معلوم کرنا گوارہ نہیں کیا اور وہ سات دن ایک کمرے میں لاوارثوں کی طرح مرا ہوا پڑا رہا. جب اس کے جنازے پہ انھی عزیزوں کو روتے پیٹتے دیکھا تو دل نے کہا کیسی رشتہ داری کیسا تعلق سب ڈھونگ ہے یہاں؟؟؟
کراچی میں پچھلے ایک ماہ کے دوران جن دو خواتین اداکاراوں کی خستہ حال لاشیں ملی ہیں ان کے بھی ڈھیروں عزیز تھے
دنیا ان کے آگے پیچھے ہوتی تھی ،، لیکن کسمپرسی میں مرے. یعنی تعق ، دوستی ، رشتہ داری ، ہمساٸیگی ، کوٸی نہیں تھا ان کا.کیا ہم معاشرتی طور پہ بانجھ پن کی طرف جا رہے ہیں؟
تبصرہ لکھیے