محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورہ کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے یوم عاشوراء زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے.
قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی. رسول اللہﷺ کا یہ عمل تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے. اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے. لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے. جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ ﷺ نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں (بخاری1/481).
بعض حدیثوں میں ہے کہ آپ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کے لیے دیا جاتا ہے. چنانچہ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع اور ربیع بنت معوذ بن عفراءؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے. یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں. اور جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں، بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفل روزہ کی رہ گئی .(بخاری شریف1/268 مسلم شریف 1/320)
لیکن اس کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کا معمول یہی رہا کہ آپ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے .(معارف الحدیث4/128)
یوم عاشورہ بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت کا حامل دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں. چناںچہ مورئخین نے لکھا ہے کہ
یوم عاشورہ میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا.
اسی دن حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام کی توبہ قبول ہوئی.
اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا.
اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی.
اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کوخلیل اللہ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی.
اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی.
اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی.
اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی.
اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی.
اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی.
اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی.
اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی.
اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے.
اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا.
اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی.
اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا.
اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی.
اسی دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے.
اسی دن حضور اکرمﷺنے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا.
اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ اور جگر گوشہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا.
اور اسی دن قیامت قائم ہوگی (نزہۃ المجالس348.1-347، معارف القرآن پ11 آیت 98۔ معارف الحدیث4/168)
مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورہ کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے. علاوہ ازیں نبی کریم ﷺ سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
میں نے نبی کریم ﷺ کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یوم عاشوراء کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے (بخاری شریف1/268، مسلم شریف 1/360-361)
مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ کے طرزِ عمل سے یہی سمجھا کہ نفل روزوں میں جس قدر اہتمام آپ یومِ عاشورہ کے روزہ کا کرتے تھے، اتنا کسی دوسرے نفلی روزہ کا نہیں کرتے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:
روزہ کے سلسلے میں کسی بھی دن کو کسی دن پر فضیلت حاصل نہیں؛ مگر ماہِ رمضان المبارک کو اور یوم عاشورہ کو (کہ ان کو دوسرے دنوں پر فضیلت حاصل ہے(رواہ الطبرانی والبیہقی، الترغیب والترہیب 2/115)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشوراء کے دن کا روزہ گذشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ (کذا فی الترغیب2/115)
ان احادیث شریف سے ظاہر ہے کہ یوم عاشوراء بہت ہی عظمت وتقدس کا حامل ہے؛ لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔احادیث طیبہ سے یومِ عاشوراء میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں:
روزہ: جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں. لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم ﷺنے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشوراء کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو. تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے.
جیساکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے یوم عاشوراء کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس دن کو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپﷺنے ارشاد فرمایا یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے (مسلم شریف1/359)
حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ حضرت ابوقتادہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺنے ارشاد فرمایا کہ عاشورہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف فرمادیں گے (ترمذی ج 1 ص 151)
ان احادیث میں گناہ سے صغائر گناہ مراد ہے، کبائر گناہ کے لیے توبہ کی ضرورت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اعمال صالحہ کر نے کی توفیق نصیب فرمائیں۔آمین
تبصرہ لکھیے