گزشتہ دنوں لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے میں دورانِ لیکچر ایک استاد دل کا دورہ پڑنے سے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ بظاہر یہ ایک عام خبر ہے جو سوشل میڈیا کی اس تیز رفتار دنیا میں چند گھنٹوں کے اندر آنکھوں سے اوجھل ہو گئی، لیکن درحقیقت یہ واقعہ ایک ایسے زخم کی نمائندگی کرتا ہے جو ہمارے تعلیمی نظام، سماجی رویوں اور ریاستی بے حسی کے وجود میں گہرا ہو چکا ہے۔
ایک استاد کی وفات صرف ایک شخص کے دنیا سے چلے جانے کا نام نہیں، یہ علم کی ایک جلتی شمع کا بجھ جانا ہے، وہ شمع جو نہ صرف اپنی روشنی میں دوسروں کو جلا بخشتی تھی بلکہ خود جل کر معاشرے کو سنوارتی تھی۔ دورانِ تدریس وفات پانے والا استاد اس نظامِ تعلیم کا نمائندہ تھا جو آج بھی جذبۂ خدمت اور فرض شناسی کے جذبے سے سرشار ہے، مگر افسوس کہ ان عظیم افراد کی صحت، وقار، اور فلاح و بہبود کے لیے ہماری ریاستی مشینری اور سماج کی اجتماعی فکر میں کوئی مؤثر مقام موجود نہیں۔
پاکستان میں اساتذہ کو وہ عزت، مقام اور سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں جن کے وہ واقعی حق دار ہیں۔ نہ انہیں معاشی تحفظ حاصل ہے، نہ سماجی فلاح کا نظام، اور نہ ہی ہنگامی طبی امداد کا ایسا انتظام جو ان کی زندگیوں کو بچا سکے۔ ان کی تنخواہیں وقت پر نہیں ملتیں، طبی سہولیات ناپید ہیں، اور اکثر اداروں میں تدریسی عمل کو اس حد تک بوجھل کر دیا گیا ہے کہ استاد کی صحت اور ذہنی سکون کا تصور بھی محال ہو گیا ہے۔
یہ المیہ صرف ایک فرد یا ایک ادارے تک محدود نہیں۔ یہ پاکستان کے تعلیمی نظام کا وہ کڑوا سچ ہے جسے ہم برسوں سے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ جو ہاتھ قوم کی سمت درست کرتے ہیں، جب وہ ہاتھ خود کمزور ہو جائیں تو ان کی مدد کون کرے گا؟ جب ایک استاد کو دل کا دورہ پڑے، اور آس پاس نہ کوئی طبی امداد ہو، نہ ادارہ ذمہ داری لے، تو یہ کس کی ناکامی ہے؟ کیا یہ اس سماج کی اجتماعی بے حسی نہیں، جو ہر روز اساتذہ سے توقعات کا بوجھ تو بڑھاتا ہے، مگر ان کے دکھ، مسائل اور ضروریات سے غافل رہتا ہے؟
ہمیں بطور قوم یہ سوچنے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر اساتذہ یوں ہی بے توقیر اور بے یار و مددگار رہے، تو کل کا طالب علم کس سے علم حاصل کرے گا؟ ہمیں محض جذباتی بیانات اور وقتی تعزیت سے آگے بڑھ کر، ایک مربوط اور مستقل پالیسی کی ضرورت ہے، ایسی پالیسی جو اساتذہ کے لیے طبی سہولیات، مالی تحفظ، اور وقارِ روزگار کی ضمانت دے سکے۔
کاش یہ واقعہ صرف افسوس کے دو بولوں پر ختم نہ ہو، بلکہ یہ قوم کو جگانے والی ایک دستک بنے، وہ دستک جو ہمیں بتائے کہ وقت کی سچائی یہی ہے:
جو چراغ دوسروں کو روشنی دیتے ہیں، انہیں بجھنے سے بچانا ہمارا فرض ہے۔



تبصرہ لکھیے