بیانیہ اب ایک مقبول عام لفظ ہے۔ یہ بیانیے کا دور ہے۔ ایک جماعت ایک بیانیہ پیش کرتی ہے تو دوسری جماعت جوابی بیانیہ پیش کرتی ہے۔ اس بیانیے اور جوابی بیانیے دونوں میں عوام کا ذکر نہیں ہوتا۔ بل کہ یہ بیانیے سیاسی اشرافیہ کے اقتدار کو دوام بخشنے کی خواہش پر مبنی ہوتے ہیں۔ بیانیوں کا یہ شور اس قدر بلند ہوتا ہے کہ کچھ دانش ور بھی اسی موضوع پر خامہ فرساٸی کو اوڑھنا بچھونا بنالیتے ہیں۔ نتیجتاً وطن عزیز کے مساٸل ثانوی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔
سیاسی کارکنوں کی تربیت بھی اس نہج پر کی گئی ہے کہ انہیں ایک مخصوص سوچ کا اسیر بنادیا گیا ہے۔ اس سوچ کے زیر اثر سیاسی کارکنان اپنے قائدین کے سطحی بیانیوں کو فورا“ اپنالیتے ہیں اور نتیجتا“ سوشل میڈیا پر اس بیانیے کی حمایتیوں کا ایک سیلاب آجاتا ہے۔ اس سوچ نے سیاسی کارکنوں کی خوۓ غلامی کو پختہ تر کیا ہے اور نتیجتاً وہ اپنے حقوق کی بات کرنے کے بجاۓ اپنے قاٸد کی ہر بدعنوانی, قول و فعل کے تضاد اور کج روی کا دفاع کرتے ہیں۔ اس طرح بیانیوں کی اس دھول میں عوام کے اصل مساٸل نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔
سیاست امور ریاست کی انجام دہی کا نام ہے۔ ملک کے نظم و نسق چلانے کے ہنر کا نام سیاست ہے۔ اس طرح عام آدمی ہی سیاست کا مرکز و محور اور تمام فیصلوں کا مدار ہونا چاہیے۔ عام آدمی کو ماٸنس کردینے سے سیاست فسطاٸیت میں بدل جاتی ہے۔ ایسی سیاست کا مقصد چند خاندانوں کی اجارہ داری کے دوام کی خواہش سوا کچھ نہیں ہے۔ اس سیاست کے لیے ہر طرح کے اصولوں کا سودا کیا جاتا ہے۔ اخلاقیات پامال کی جاتی ہے۔ پیمان شکنی کی جاتی ہے۔
اگر سیاسی جماعتیں سطحی اور بے وقت کے بیانیے پیش کرنے کے بجاۓ گڈ گورننس کو اولین ترجیح بنالیں تو وطن عزیز کے حالات سدھر سکتے ہیں اور اس نظام پر عام آدمی کا اعتماد بھی بحال ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کو فروغ دیا جاۓ۔ انٹرا پارٹی الیکشنز کراٸے جاٸیں۔ باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کراٸے جاٸیں اور بااختیار بلدیاتی نظام قاٸم کیا جاۓ۔ گلی محلوں میں ترقیاتی کام بلدیاتی نماٸندوں کے سپرد کرکے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے اصل کام یعنی قانون سازی کی طرف توجہ دیں۔ سٹوڈنٹ یونین بحال کی جاٸیں۔ یہی وہ تمام راستے ہیں جن سے جمہوری اور سیاسی عمل کو زیادہ شراکتی , شمولیتی,پاٸیدار اور قابل اعتماد بنایا جاسکتا ہے۔ اس عمل سے متبادل اور تربیت یافتہ قیادت سامنے آۓ گی۔
سیاست دان اپنے فعل سے ثابت کریں کہ انہیں واقعتا“ غریب آدمی کے دکھوں کا احساس ہے۔
اگر خزانہ خالی ہے تو سب مل کر فاقہ کشی کریں۔ اگر درہم و دینار کی فراوانی ہے تو غربت و افلاس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
تخفیف غربت کے لیے وساٸل کا رخ اشرافیہ سے عوام کی طرف موڑ دیا جاۓ۔
لوگوں کو ہنر مند بناکر اپنے پاٶں پہ کھڑا کیا جاۓ۔
سستے آٹے کی شعبدہ بازیوں کے بجاۓ پاٸیدار ترقی کی طرف توجہ دی جاۓ۔
حالات بدل رہے ہیں۔ اب شخصیت پرستی پر مبنی بیانیوں کا دور نہیں رہا۔ شعور بیدار ہورہا ہے۔ اب عوام دوست بیانیے ہی کام یاب ہوں گے۔ ماضی میں لوگوں کی ایک غالب اکثریت سیاسی عمل سے لاتعلق رہتی تھی۔اب سوشل میڈیا کی حد تک تو یہ حقیقت واضح ہے کہ لوگ سیاست میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ عدالتی فیصلوں کے انتظار میں ٹیلی وژن سکرین سے جم جاتے ہیں۔ اب وہ وقت نہیں ہے کہ تمام خاندان ایک ہی جماعت کا حامی ہو۔ سیاسی عمل میں نوجوانوں کی دل چسپی بڑھ گٸی ہے۔ یہ نوجوان حالات میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ یہ صورت حال تقاضا کرتی ہیں سیاست فسطاٸیت کے بجاۓ گڈ گورننس کے لیے کی جاۓ۔ اہل اقتدار پر لازم ہے کہ عام آدمی لے لیے معیاری علاج, معیاری تعلیم اور سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو ممکن بناۓ۔
ایسے حالات میں کہ جب لوگ زندگی کی بنیادی ضرورت آٹے کے لیےطویل قطاروں میں کھڑے ہوں, ان قطاروں میں ان کی عزت نفس کی پامالی کا پورا سامان موجود ہو, سطحی بیانیے کام یاب نہیں ہوسکتے۔ اب صرف اور صرف عوام دوست بیانیہ ہی کام یاب ہوگا۔ جو اس بیانیے کا اپنا کر کام یابی اس پر عمل کرکے دکھاۓ گا, سب سے بڑا سیاست دان کہلاۓ گا۔ اب اقوال زریں سے کام نہیں چلے گا۔ اب محض جمہوریت کے نعرے کام نہیں آٸیں گے۔ بل کہ عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جمہوری عمل کا تعلق براہ راست عوام کی زندگی ہے اور آٸین کی بالادستی کا مطلب بھی عوام کی حالت کی بہتری ہے۔
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر درد مندوں کے بنتے ہو کیوں
تم نہیں چارہ گر ، کوئی مانے، مگر
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
( جالب)
تبصرہ لکھیے