ہوم << سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور سچ کی تلاش تحریر. سلمان احمد قریشی

سیاست، اسٹیبلشمنٹ اور سچ کی تلاش تحریر. سلمان احمد قریشی

پاکستان میں یہ بحث عرصہ دراز سے جاری ہے کہ کیا ملک کی فوج صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری یعنی دفاع تک محدود ہے یا اسے ملکی سیاسیات میں بھی کردار ادا کرنا چاہیے؟ اس موضوع پر بات کرتے ہوئے اکثر سیاستدان اپنی ناکامیوں کا بوجھ فوج پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف جب اداروں پر اعتماد کی بات آتی ہے تو قوم کی امیدیں بھی ہمیشہ فوج سے وابستہ ہوتی ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جو پاکستان کی سیاسی فضا کو دھندلا کر دیتا ہے۔پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی سیاست اس تضاد کی زندہ مثال بن چکی ہے۔ اپنی حکومت کے دوران وہ خود اعتراف کرتے رہے کہ وہ حساس اداروں کے ذریعے معاملات چلاتے رہے۔ ’سیم پیج‘ کی اصطلاح کو فخر سے دہراتے اور اداروں کے ساتھ قربت پر ناز کرتے تھے۔آج صورتحال مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کے کچھ سپورٹرز فوج کے خلاف براہ راست یا درپردہ مہم میں شامل ہیں۔

فوج کی سیاست میں مداخلت یہ پاکستان میں ایک پرانی لیکن مسلسل تازہ رہنے والی بحث ہے۔حقیقت جاننے کی کوشش کریں تو اس سوال کا جواب ملنا مشکل نہیں کہ فوج اپنی آئینی حدود میں ہے یا سیاسی میدان میں بھی سرگرم ہے۔۔؟ ہر دور میں جب بھی جمہوری نظام متزلزل ہوا،انگلیاں فوج کی طرف اُٹھتی رہیں۔ سیاسی رہنما اکثر اپنی ناکامیوں کا بوجھ فوج کے کردار پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا فوج نے واقعی خود کو مکمل طور پر سیاست سے دور رکھا ہے؟
پاکستان کی فوج ایک منظم، پیشہ ور اور طاقتور ادارہ ہے جس پر قوم کی اُمیدیں بھی ہیں اور شکایات بھی۔ بعض اوقات اس پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ آئینی کردار سے ہٹ کر سیاسی فیصلوں میں مداخلت کرتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب ہر بحران کے وقت یہی فوج سیاسی جماعتوں کی پہلی اور آخری اُمید بن جاتی ہے۔حالیہ دنوں میں ایک بار پھر سیاست، فوج اور عمران خان کے درمیان تعلقات کی نوعیت موضوعِ بحث بنے رہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان اپنے دورِ حکومت میں ''سیم پیج'' کی اصطلاح کو فخر سے دہراتے رہے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی صفحے پر ہیں۔ خفیہ اداروں کے ذریعے سیاسی معاملات چلانے کا اعتراف بھی کیا۔ مگر جب حکومت سے محروم ہوئے تو ساری ذمہ داری فوج پر ڈال دی۔اب حالات یہ ہیں کہ وہ موجودہ اتحادی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور مذاکرات کی پیشکش بھی براہ راست حکومت کے بجائے فوج سے کرنے پر بضد ہیں۔ دوسری طرف ان کی جماعت کے حامی سوشل میڈیا پر ''سیولین بالادستی'' کا نعرہ بلند کرتے ہوئے خود فوج کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کیا یہ دوغلا پن نہیں؟ کیا یہی سیاسی بلوغت ہے؟

یہ وہی عمران خان ہیں جنہوں نے ماضی میں اپوزیشن کو جمہوری فضا دینے سے انکار کیا اور اپنی مرضی کے سیاسی تشریحات کو قانون و اصول کا لبادہ پہنایا۔ جب قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تو پاکستان پیپلز پارٹی نے جمہوری روایات کے تحت حکومت سازی میں تعاون کی بات کی مگر پی ٹی آئی کا رویہ انتشار پسندانہ رہا۔ وہ یا تو تنہا حکومت کرنا چاہتے تھے یا پھر کسی کو نظام چلانے ہی نہ دیا جائے۔ اتحاد اور اشتراک کا فرق وہ آج تک نہیں سمجھ سکے۔آج عمران خان جیل میں ہیں۔ ان پر نو مئی 2023 کے واقعات کی منصوبہ بندی، فوجی تنصیبات پر حملوں، اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت جیسے الزامات ہیں۔ ایسے میں ان کے حامی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ صرف فوج سے ہوں گے، نہ کہ حکومت وقت سے۔ یہ رویہ نہ صرف آئینی حدود کی نفی ہے بلکہ خود اُن دعووں کی بھی تردید ہے جو وہ ''جمہوریت کی بحالی'' کے نام پر کر رہے ہیں۔
27 جون 2025 کو پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا ایک بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے اپنی ویب سائیٹ پر انٹرویو شائع کیا جس میں وہ واضح الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ
”ہم سیاسی جماعتوں سے بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ فوج صرف ریاست سے بات کرتی ہے، جو آئین کے تحت منتخب حکومت کی نمائندہ ہوتی ہے۔“ڈی جی آئی ایس پی آر کامزید کہنا تھا کہ سیاستدان اپنی سیاست فوج سے الگ رکھیں۔ فوج کو سیاسی جھگڑوں میں گھسیٹنا ملک کے لیے خطرناک ہے۔ ان کا یہ بیان اس تاثر کی نفی کرتا ہے جو عمران خان کی جماعت اور دیگر حلقے پیش کرتے ہیں کہ فوج پسِ پردہ سیاسی فیصلوں میں شریک ہے یا کم از کم بات چیت کر رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے فوجی ادارے پر اٹھنے والے اعتراضات کا مدلل جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعتیں جب ریاستی امور میں ناکام ہوتی ہیں تو اپنے بیانیے کے تحفظ کے لیے فوج کو ہدفِ تنقید بناتی ہیں۔”ہم پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ ہم بجلی کے میٹر چیک کرتے ہیں، پولیو ٹیموں کے ساتھ جاتے ہیں یا کورونا جیسے بحران میں فرنٹ لائن قیادت کرتے ہیں۔ مگر یہ سب حکومتوں کے کہنے پر ہوتا ہے۔ فوج از خود کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔“لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا جیسے حساس علاقوں میں فوجی موجودگی بھی صوبائی حکومتوں کی درخواست پر ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ فوج نہیں کرتی بلکہ سیاسی قیادت کرتی ہے۔

جب ان سے سوال ہوا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ کیا واقعی پاکستان میں ہی موجود ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ دنیا کے ہر ملک میں ایسے مسائل ہوتے ہیں۔ پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنانا تبھی مناسب ہے جب باقی دنیا کی مثالوں کو بھی دیکھا جائے۔ ”کیا انڈیا، امریکہ، یا برطانیہ میں لاپتہ افراد نہیں؟ کیا وہاں بھی اداروں پر اسی شدت سے تنقید ہوتی ہے؟“
یہ تمام گفتگو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت سے متعلق اکثر بیانیہ یا تو حقائق سے ہٹ کر ہوتا ہے یا سیاسی مفادات کے لیے گھڑا جاتا ہے۔ بلاشبہ ماضی میں فوجی حکومتیں رہی ہیں، جنرل ایوب سے لے کر جنرل مشرف تک کی تاریخ موجود ہے۔جنرل مشرف کی رخصتی کے بعد جب پہلی بار سیاسی قیادت میثیاق جمہوریت کے تحت آگے بڑھنے لگی تو میاں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر کورٹ میں پہنچ گے۔ممیو گیٹ سکینڈل میں نواز لیگ کا کردار قابل شرم رہا۔سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے والے میاں نوازشریف خود بھی 5سال پورے نہ کرسکے اور نااہل ہی ہوئے۔پھر ووٹ کوعزت دو کا بیانیہ لیکن تب عمران خان نوازشریف والا کردار اپنا چکے تھے۔ تھرڈ آپشن سامنے آئی۔اکثریت نہ ہونے کے باوجود عمران خان اقتدار پر براجمان ہوئے۔اس وقت پی ٹی آئی کو فوج کے کردار پر اعتراض نہ تھا۔ معاملہ بہت سادہ ہے سیاسی قیادت عوامی طاقت کی بجائے شارٹ کٹ پر یقین کامل کیساتھ آگے بڑھتی رہی۔

مگر حالیہ برسوں میں فوج نے بارہا خود کو ''نیوٹرل'' ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عمران خان کے خطوط نہ پڑھنا بھی اسی پالیسی کا تسلسل تھا۔اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی اصلاح پر تیار نہیں۔ جب تک پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی، ادارے خودمختار نہیں ہوں گے، سیاسی جماعتیں جمہوری اقدار پر قائم نہیں ہوں گی تب تک ہر بحران میں اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھا جاتا رہے گا۔فوج پر تنقید سے قبل سیاسی جماعتوں کو اپنا ”ہاؤس ان آرڈر“ کرنا ہوگا۔ تب ہی کوئی ریاستی ادارہ سیاست سے خود کو مکمل دور رکھ پائے گا۔ بصورتِ دیگر یہ بحث یونہی جاری رہے گی اور جمہوریت ہمیشہ سوالیہ نشان تلے سسکتی رہے گی۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment