قسط نمبر ۲
ابن شداد لکھتا ہے کہ
“ ستائیس رجب کی رات تھی اور جمعہ کا دن تھا جب دو اکتوبر ۱۱۸۷ء کو بیلین آف ابلین نے ہتھیار ڈالے تو سلطان کو بتایا گیا کہ آج ہی وہ مبارک گھڑی ہے جب رسول اکرم ﷺ اس شہر میں تشریف لائے تھے پہلے اس کا ارادہ چند روز کے بعد یروشلم میں داخلے کا تھا لیکن جب اسے پتہ چلا کہ آج کی رات شب معراج ہے تو اس نے اسی روز یروشلم میں داخلے کا فیصلہ کر لیا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ یروشلم دو بار مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا اور دونوں بار یہ فتح اس مبارک گھڑی میں نصیب ہوئی جس دن رسول اکرم ﷺ یروشلم تشریف لائے تھے ۔ جب حضرت عمر ؓ پہلی بار فتح یروشلم کے بعد شہر میں داخل ہوئے تو اس روز بھی رجب کی ستائیس تاریخ تھی ۔
ایک طرف صلیبیوں کی قطاریں گدھوں گھوڑوں اور گاڑیوں پر سامان و اسباب لادے باب داؤد اور دمشقی دروازے کے ذریعے مغرب کی جانب سے شہر سے باہر نکل کر ٹریپولی کی جانب رواں دواں تھیں ان دروازوں پر شہر کے حکام ان سے زر فدیہ وصول کر کے انہیں باہر نکلنے کی اجازت دے رہے تھے اور دوسری طرف مشرق کی جانب سے سلطان اپنے فوجی دستوں کے ساتھ گولڈن گیٹ کے ذریعے شہر میں داخل ہوا اور سیدھا حرم شریف پہنچا صلیبی ٹمپلرز نے مسجد عمر ؓ ( مسجد اقصیٰ) کو اپنے گرینڈ ماسٹر کی رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا تھا اور پرانی زیر زمین مسجد اقصٰی( مسجد مروان ) میں اپنے گھوڑوں کا اصطبل اور گھوڑوں کی افزائش نسل کا مرکز بنا رکھا تھا ۔ قبة الصخرہ میں ان کا مرکزی دفتر قائم تھا ۔ حرم شریف کے احاطے اور فرش پر جگہ جگہ گھوڑوں کی لید پڑی تھی ۔ سلطان یروشلم میں داخل ہوا اور سیدھا حرم شریف (ٹمپل ماؤنٹ ) پہنچا ۔ جذبات کی شدت سے وہ مسجد کی دہلیز پر گھٹنوں کے بل جیسے گر پڑا وہ دہلیز پر ہی سجدہ ریز ہو گیا ۔ بہاؤالدین شداد اور احمد بیلی مصری کے مطابق سلطان ایوبی کے آنسو اس طرح بہہ رہے تھے کہ جیسے اس عظیم مسجد کی دہلیز دھُل رہی ہو ۔پھر وہ اٹھا اور اذان دینے لگا ۔
نوے سال کے بعد یروشلم کی فضاؤں میں ایک بار پھر اللہ اکبر کی صدا گونج رہی تھی یہی وہی مبارک جگہ تھی جہاں حضور اکرم ﷺ نے ستائیس رحب کی رات کو انبیاء کی امامت کروائی تھی ۔ قبلہ اول میں پہلی اذن دینے کی سعادت حضرت بلال ؓ کے حصے میں آئی تھی جب وہ حضرت عمر ؓ کے ساتھ فتح یروشلم کے موقع پر پہلی بار اسی گولڈن گیٹ کے راستے شہر میں داخل ہوئے تو حضرت عمر ؓ نے حضرت بلال ؓ سے درخواست کی کہ وہ اذان دیں حضرت بلال ؓ حضور اکرم کے پردۂ فرما جانے کے بعد سے اذان دینا چھوڑ چکے تھے حضرت عمر ؓ اور دیگر حاضرین کے اصرار پر وہ کھڑے ہوئے اور اذان دینی شروع کی تو وقت جیسے رک سا گیا تمام لوگوں کی نگاہوں کے سامنے وہ منظر گھومنے لگا جب مسجد نبوی کے صحن میں صحابہ کی محفل سجی تھی حضور اکرم ﷺ رونق افزا تھے اور حضرت بلال ؓ مسجد نبوی کے چبوترے پر کھڑے اذان دے رہے تھے ۔حضرت عمر ؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ ، حضرت خالد بن ولید ؓ ، حضرت عمرو بن العاص ؓ ، حضرت امیر معاویہ سمیت تمام حاضرین مجلس جو اس وقت موجود تھے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے کئی صحابہ کی تو ہچکیاں بندھ گئی تھیں ۔ کچھ حضور اکرم ﷺ کی یاد تھی اور کچھ اس مبارک جگہ کی فتح کی خوشی ۔
غم وخوشی کی ایسی ہی ملی جلی کفیت آج صلاح الدین ایوبی پر بھی طاری تھی ۔ اذان دیتے دیتے وہ بچوں کی طرح رونے لگا ۔ اذان ختم ہوئی تو ایک بار پھر سجدے میں گر گیا ۔ وہ ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا تھا اس کے ہمراہ آنے والے تمام کمانڈر اور حاضرین بھی کچھ اسی قسم کی جذباتی کفیت سے گزر رہے تھے ۔ وہ اس بچے کی طرح کبھی رو پڑتے تو کبھی ہنسنے لگتے جسے اچانک اس کا پسندیدہ کھلونا مل گیا تھا جس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اچانک پوری ہو گئی تھی ۔ اس نے مسجد اقصٰی اور قبة الصخرہ کو عرق گلاب سے دھلوا کر اس کی مسجد کی حیثیت بحال کی اور ساری رات وہاں سجدہ ریز رہا “
مسجد کی حالت بہت بری تھی ۔ کئی مسلمان حکمرانوں نے وقتاً فوقتاً مسجد میں سونے چاندی کے فانوس اور شمع دان رکھوائے تھے اور بیش قیمت تحائف مسجد کی نذر کئے تھے ۔ فرش پر سنگ مرمر کی سلیب لگوائی تھیں ۔ صلیبی جاتے وقت یہ تمام فانوس شمع دان اور وہ قیمتی تحائف اٹھا کرلے گئے تھے ۔ فرش سے سنگ مرمر اور خارا کی وہ ساری سلیبیں بھی غائب تھیں ۔
ابن شداد نے بیان کیا ہے کہ “سلطان صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کی بے حرمتی اور وہاں کے مسلمانوں پر ہونے والے وحشیانہ مظالم کی روئیداد اس کے باپ نجم الدین ایوب نے بچپن میں کئی بار سنائی تھی ۔ نجم الدین نے یہ داستان غم اپنے باپ سے سنی تھی ۔ اور پھر یہ روئیداد سلطان ایوبی کے خون میں شامل ہو گئی تھی اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ بیت المقدس کو آزاد کروائے گا ۔ آج جب وہ اس مقدس شہر کو فتح کرنے نکلا تھا تو اس کے دو نوجوان بیٹے الملک الافضل اور الملک الاالظاہر بھی اس کی فوج میں شامل تھے ۔ بیت المقدس کی داستان جو اس نے اپنے باپ سے سنی تھی اس نے اپنے بیٹوں کو یوں سنائی تھی جیسے ایک قیمتی ورثہ ان کے حوالے کر رہا ہو ۔ اس نے انہیں کہا تھا ۔ کہ میرے عزیز بیٹو !
تمہارے دادا کہا کرتا تھا کہ گردن اس روز اونچی کرنا جس روز مسجد اقصٰی کو کفار سے آزاد کروا لو گے ۔ اطمینان کی نیند اس روز سونا جس رات مسجد اقصٰی میں فتح کے نفل پڑھ لو گے ۔”
بیت المقدس فتح ہوا اور مسجد آزاد ہوئی تو سلطان ایوبی نے سب سے پہلے مسجد اقصٰی کی صفائی اور مرمت کروائی ۔
ابن شداد کی یادداشتوں کے مطابق وہ خود سپاہیوں کے ساتھ اینٹیں اور گارا اٹھاتا رہا ۔ اور ایسا کرتے ہوئے اکثر اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو جایا کرتی تھی ۔
۲۳اکتوبر ۱۱۸۷ء کو جمعہ کا مبارک دن آیا تو سلطان ایوبی جمعہ کی نماز کے لئے مسجد اقصٰی گیا ۔ اور وہ منبر جو نورالدین زنگی نے اپنی زندگی میں اس لئے بنوایا تھا کہ بیت المقدس کی فتح کے بعد اسے مسجد اقصٰی میں رکھوائے گا ۔ اسے اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا ۔ یہ منبر ایک روز پہلے ہی نور الدین زنگی کی بیوہ راضی خاتون اور بیٹی اقصٰی النساء دمشق سے لائی تھیں ۔ جمعہ کا خطبہ دمشق کے قاضی الفضل ابن ذکی نے پڑھا ۔ جن کا تعلق حضرت عثمان ؓ کے خاندان سے تھا ۔
اس کے بعد اس نے مسجد اقصٰی کی آرائش پر توجہ دی ۔ سنگ مرمر منگوا کر فرش میں لگوائے مسجد کے اندورنی ہال پر خوبصورت نقش ونگار بنوائے پچی کاری کی گئی قرآنی آیات نقش کروائی گئیں ۔ اور مسجد کو جی بھر کر خوبصورت بنایا ۔ اسی طرح قبةالصخرہ کے اندورنی ھال پر بھی خاص توجہ دی ۔ سلطان ایوبی کے ہاتھوں ہوئی یہ آرائش اور خوبصورتی آج بھی ان دونوں عمارتوں میں دیکھی جا سکتی ہے اور ہزار سال گزرنے کے باوجود ان کی خوبصورتی اور آب وتاب میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ سلطان ایوبی آج بھی ان عمارتوں کی صورت میں زندہ ہے اور یہاں آنے والے زائرین کو ان عمارتوں کے ہر ہر نقش میں اس کا چہرہ نظر آتا ہے لیکن افسوس کہ اس کا رکھوایا ہوا وہ منبر جو تاریخ میں سلطان ایوبی کے منبر کے نام سے مشہور تھا آج موجود نہیں ۔۲۱ اگست ۱۹٦۹ ء میں ایک آسٹریلوی عیسائی روہن مائیکل ڈگلس نے یروشلم کے یہودیوں کے ساتھ مل کر اسے نذر آتش کر دیا ۔ اس منبر کے جلے ہوئے باقیات مسجد اقصٰی سے ملحقہ میوزیم میں موجود ہیں اور اس منبر کی ایک نقل آج مسجداقصٰی کے ہال میں پڑی نظر آتی ہے جو پنتالیس سال کی شبانہ وروز محنت کے بعد پچاس کاریگروں نے اردن کی ایک یونیورسٹی میں تیار کیا تھا ۔
اس منبر کی مکمل روئیداد میری کتاب کے ایک باب “ کہ اسی قصے کا تسلسل ہے یہ داستاں میری” میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے ۔
فتح فلسطین کے بعد حضرت عیسٰی کا مقدس چرچ تین تک بند رہا سلطان کو مشورہ دیا گیاکہ اسے گرا دیا جائے لیکن اس نے جواب دیا کہ میرے لئے حضرت عیسٰی بھی بحثیت نبی بڑے محترم ہیں ان کی یادگار میں کیسے گراسکتا ہوں ۔
اس نے عیسائیوں کو اپنی مذہبی عبادات ادا کرنے کی پوری اجازت دیتے ہوئے تیسرے دن اسے عبادت کے لئے کھول دیا ۔
بارٹلیٹ نے لکھاہے کہ
“صلیبیوں نے قبطی آرتھوڈوکس اور حبشہ کے عیسائیوں پر یروشلم کے دروازے بند کررکھے تھے ۔ صلاح الدین نے انہیں بھی یروشلم آنے اور مقدس کلیسا میں عبادت کرنے کی اجازت دے دی ۔”
W.B. Bartlett (2011). Downfall of the Crusader Kingdom.
کچھ اسی قسم کے الفاظ ماہر ابو منشر Maher Abu-Munshar نے اپنی کتاب میں بیان کئے ہیں
ابو منشر اور سٹیون رونسمین دونوں نے لکھا ہے کہ بزنطینی شہنشاہ آئزک دوم انجیلوس نے سلطان کو یروشلم کی فتح پر مبارک کا پیغام بھیجا اور درخواست کی کہ آرتھوڈوکس عیسائیوں کو یروشلم کی زیارت کی اجازت دی جائے ۔ جس پر سلطان نے نہ صرف انہیں اجازت دی بلکہ قسطنطنیہ کے بطریق اعظم Ecumenical Patriarch of Constantinople
کو یروشلم میں عیسائیوں کے مذہبی معاملات کا انچارج بھی بنا دیا
سلطان کی اس تاریخی فتح کے بارے میں کچھ معلومات ۲۰۰۵ میں ریلز ہونے والی ہالی ووڈ کی مشہور فلم "کنگڈم آف ہیون Kingdom of Heaven “
سے بھی ملتی ہیں جس میں فتح بیت المقدس کے مناظر کو بڑے خوبصورت انداز میں فلمایا گیاہے۔
گو کہ یہ فلم بنیادی طور پر بیلین آف ابلین کے کردار کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ اور وہی اس فلم کا ہیرو ہے لیکن
سلطان صلاح الدین کی شخصیت ولن ہونے کے باوجود اپنی شرافت دلیری اور جنگی مہارت کی بناء پر اس فلم میں بیلین پر غالب آجاتی ہے ۔ خاص طور اس فلم میں فلمائے گئے جنگ حطین کے مناظر اور یروشلم کے محاصرے اور فتح کے منظر قابل دید ہیں ۔ سلطان ایوبی پر حال ہی میں بنائے جانے والے مشہور ترک ڈرامے میں بھی یہ واقعات اور مناظر بہترین انداز میں دکھائے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ بھی ان واقعات پر بے شمار ڈرامے اور فلمیں بن چکی ہیں ۔
تاریخ کا یہ باب ہمیشہ سے ہی مغرب اور مشرق دونوں کے باسیوں کے مذہبی اور تاریخی ورثے میں انتہائی اہمیت کا حامل رہاہے ۔
(جاری ہے )
سلطان صلاح الدین اور رچرڈ شیر دل کی مڈبھیڑ اور تیسری صلیبی جنگ کا قصہ تیسری قسط میں ملاحظہ فرمائیں ۔
یہ تحریر میری دوسری کتاب “ اہل وفاکی بستی “ میں شامل ہے جو فلسطین اور اردن کے سفر کی یاد داشتوں پر مبنی ہے ۔ “
تبصرہ لکھیے