ہوم << میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو - عبیداللہ کیہر

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو - عبیداللہ کیہر

اردو کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے۔ یہ ایک زندہ و متحرک زبان ہے جس کے دروازے نئے الفاظ کیلئے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ مختلف زبانوں کے الفاظ وقتاً فوقتاً اس میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ ان الفاظ میں کچھ تو بہت خوبصورت ہوتے ہیں، لیکن کچھ اصطلاحیں یا الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اصل معنی وہ نہیں ہوتے جو اردو میں سمجھے جاتے ہیں۔ بس وہ بلا سوچے سمجھے اردو میں استعمال ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی گہرائی میں کوئی نہیں جاتا کہ ان الفاظ کا اصل مطلب یا استعمال کیا ہے۔

مثلاً ایک لفظ ہے ”میٹھا“ … جسے ہمارے دعوتِ اسلامی والے بھائی اکثر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ”میٹھا مدینہ“ کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو ”میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو“ کہہ کر بھی پکارتے ہیں۔ لفظ ”میٹھا“ جس طرح انگلش میں استعمال ہوتا ہے کہ مائی سویٹ وائف (یعنی میری پیاری بیوی) یا مائی سویٹ بیبی (یعنی میرے پیارے بچے)، اسی طرح سندھی میں بھی بولا جاتا ہے۔ منھنجا مٹھڑا مولا سائیں (یعنی میرے پیارے اللہ میاں)، اساں جو مٹھو مرسل (یعنی ہمارا پیارا نبی)، اساں جا مٹھا مائٹ (یعنی ہمارے پیارے رشتے دار)، مٹھڑا گھوڑا اورے آ (یعنی پیارے گھوڑے قریب آؤ).

لیکن یہی جملے اگر ہم لفظ بہ لفظ اردو میں ترجمہ کر کے اس طرح بولیں گے کہ :
مائی سویٹ وائف … میری میٹھی بیوی
مائی سویٹ بیبی … میرے میٹھے بچے
منھنجا مٹھڑا مولا سائیں … میرے میٹھے اللہ میاں
اساں جو مٹھو مرسل … ہمارے میٹھے رسول
اساں جا مٹھا مائٹ … ہمارے میٹھے رشتے دار
مٹھڑا گھوڑا اورے آ … میٹھے گھوڑے قریب آؤ

تو سننے والا حیران ہی رہ جائے گا کہ یہ ہم کیا کہہ رہے ہیں؟ میں اپنے پیارے بھائی کو پیارے بھائی تو کہوں گا، لیکن میٹھا بھائی نہیں کہوں گا۔ ٹھیک اسی طرح ”پیارا شہر مدینہ“ تو ٹھیک ہوگا لیکن ”میٹھا شہر مدینہ“ ، یہ مجھے کچھ عجیب لگے گا۔ چنانچہ ”میٹھے“ کی اصطلاح اردو میں ہر جگہ استعمال کرنا مناسب نہیں۔ ہمارے صوبہ خیبر میں گڑ بہت عمدہ ملتا ہے۔ سردیوں میں جو تازہ گڑ تیار ہوتا ہے وہ بڑا خوش ذائقہ ہوتا ہے۔ لوگ اسے شوق سے خریدتے ہیں اور سویٹ ڈش کے طور پر کھاتے ہیں یا چائے میں چینی کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ اسی تازہ گڑ کو مزید ذائقہ دار بنانے کیلئے اس میں ڈرائی فروٹ بھی شامل کیا جاتا ہے۔

اس خشک میوے کی آمیزش سے بنے گڑ کو پٹھان بھائی ”مسالے دار گڑ” کہہ کر بیچتے ہیں۔ لیکن اردو بولنے والا خریدار مسالے دار گڑ کا مطلب یہ سمجھے گا کہ یہ شاید مرچ مسالہ یا گرم مسالہ ڈال کر تیار کیا گیا ہے، چنانچہ وہ یہی کہے گا کہ بھیا گڑ کے اندر مسالہ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے بھی جب پہلی بار اپنے ایک پٹھان دوست سے مسالے دار گڑ سنا تو اس سے پوچھا کہ آپ گڑ میں کون کون سے مسالے ڈالتے ہیں؟ تو وہ چونک کر بولا کہ مسالے تو کوئی نہیں، بس پستے بادام اخروٹ وغیرہ ڈالتے ہیں۔ تو میں نےپوچھا کہ پھر اس کو مسالے دار کیوں کہتے ہیں؟ تو بولا پتہ نہیں … بس ہم تو یہی کہتے ہیں۔

سندھی زبان میں ایک اصطلاح ہے ”وارا“، یعنی والا … یا والے … یہ لفظ سندھ میں اس موقعے پر بولا جاتا ہے جب کچھ اور لوگوں کے بارے میں بات ہو رہی ہو۔ مثلاً اگر میرے پاس میرے دوست کلیم، شکیل، زبیر اور جمیل آئیں اور ان کے جانے کے بعد میں کسی کو بتاؤں کہ میرے دوست آئے تھے، تو میں ان میں سب سے بڑے کا نام لے کر کہوں گا :

آج ”شکیل وارا“ … آئے تھے
یا کہوں گا کہ ”جمیل وارا“ … آئے تھے

تو یہ ”وارا“ سندھی میں تو ٹھیک ہے، لیکن یہی لفظ اندرون سندھ شہروں کے اردو بولنے والے بھی لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے یوں بولتے ہیں :

آج ”شکیل والے“ آئے تھے
یا آج ”جمیل والے“ آئے تھے
آج ”عبید والے“ لاڑکانہ گئے ہیں
کل ”زبیر والے“ شادی میں کیوں نہیں آئے؟

یہ اصطلاح اسی طرح کراچی میں بولی جائے تو کچھ عجیب لگتی ہے۔
”والا“ کی جگہ کچھ لوگ ”اور“ بھی بولتے ہیں :

آج ”شکیل اور“ آئے تھے
یا آج ”جمیل اور“ آئے تھے
اس ”اور“ کا خدا جانے کیا مطلب ہے؟ … ”دیگر“ ہے غالباً۔

بات کرتے ہوئے اگر کوئی لفظ یا نام فوراً یاد نہ آئے تو ہم کہتے ہیں :
ارے یار اسے ”کیا کہتے ہیں“ … ؟
اسی ”کیا کہتے ہیں“ کو سندھی میں کہتے ہیں ”نالو چھا“ … لیکن اس اصطلاح ”نالو چھا“ کو اندرون سندھ اردو بولنے والے لفظ بہ لفظ ترجمہ کر کے کہتے ہیں … ”نام کیا“
یار وہ چیز نہیں تھی ”نام کیا“
وہ میں اس دن اس شہر نہیں گیا تھا ”نام کیا“
میں اس دن وہ مشین لے کے نہیں آیا تھا ”نام کیا“

اگر کوئی مشین نئی خریدی جائے، یا وہ خراب ہو جائے اور اس کی مرمت کروائی جائے، لیکن وہ پھر بھی چل کے نہ دے، تو کہتے ہیں کہ یہ تو ختم ہو گئی ہے، بیکار ہو گئی ہے، ٹُھس ہو گئی ہے۔ لیکن اندرون سندھ کچھ شہروں میں اسے ٹُھس نہیں، ٹُھپ کہا جاتا ہے :

صاحب یہ آپ کی گاڑی تو ٹُھپ نہیں چلتی
یہ ٹی وی تو خراب ہے، ٹُھپ نہیں چلتا

ایک لفظ ہے ”پیاس“ … اور جس شخص کو پیاس لگی ہو، اسے کہتے ہیں ”پیاسا“ … لیکن یہی اصطلاح سندھ میں ”پیاسا“ کی بجائے ”پیاسی“ ہوتی ہے، ویسے ہی جیسے چرس پینے والا ”چرسی“ کہلاتا ہے :
”سائیں وہ آدمی دھوپ میں چل کر آیا ہے بڑا پیاسی ہے.“

جبکہ اردو میں پیاسی عورت کیلئے بولا جاتا ہے۔ سندھی بولنے والے کبھی کبھی اردو بولتے ہوئے بھی یہ لفظ پیاسی استعمال کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے گھر دوپہر میں گئے، بڑی گرمی تھی، ہم تو بڑے پیاسی ہو رہے تھے … تو اردو بولنے والے پوچھتے ہیں یار تم تو مرد ہو تم کیسے پیاسی ہو گئے؟

دریائے سندھ کے مغرب میں ”کِھیر تھر“ کا علاقہ ہے۔ سندھ میں تو اسے ”کِھیر تھر“ (یعنی دودھ کی طرح سفید میدان) ہی کہا جاتا ہے، لیکن کراچی میں لوگ اسے کِھیر تھر کی بجائے ”کِیر تھر“ Keer Thar کہہ دیتے ہیں۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اردو میں جو حرف ”ک“ … کاف کی آواز نکالتا ہے، جبکہ یہی حرف ”ک“ سندھی میں ”کھ“ کی آواز دیتا ہے۔ یعنی سندھی میں لکھے گئے ”کیر تھر“ کو سندھی بولنے والا تو کھیر تھر ہی پڑھے گا، لیکن اردو بولنے والا اسے مغالطے میں کیر تھر پڑھے گا، اور یہی ہو رہا ہے۔ اب سندھی میں ”اک“ لکھا ہو تو یہ اکھ یعنی آنکھ ہے۔ لیکن آنکھ چونکہ ایک معروف لفظ ہے اس لئے اردو بولنے بھی اسے ”اک“ نہیں کہے گا، اکھ ہی کہے گا۔

کچھ انگریزی الفاظ بھی اردو یا سندھی وغیرہ میں آ کر عجیب شکل اختیار کر جاتے ہیں۔ مثلاً کچھ ایکسرے کروائے جائیں تو وہ ”ایکسرے“ ہی کہلائیں گے، لیکن اگر صرف ایک ایکسرے کروایا جائے تو وہ ”ایکسرا“ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ساشے تو ساشے ہی کہلائیں گے، لیکن ایک ہوا تو ”ساشا“ ہو جائے گا … و علیٰ ہذ القیاس۔ اسی طرح رورل (یعنی دیہاتی) کو رولرکہہ دیا جاتا ہے۔ سندھ میں اَن آتھرائزڈ Unauthorized کو ”انتھرائی“ بھی کہا جاتا ہے، سیلوفین ٹیپ کو ٹیپ سلوشن، الیکٹرک ٹارچ کو الیٹری اور کازوے Causeway کو کاذبو کہہ دیا جاتا ہے۔ سندھ کے شہروں کے نام بھی لکھنے اور پڑھنے میں الگ الگ ہیں۔

مثلاً جیکب آباد ”جیکماباد“ ہے، خیرپور ”کھیرپور“ ہے، لاڑکانہ "ل”لاڑکانڑوں“ ہے اور حیدرآباد ”حے درا باد“ ہے۔ سندھ میں دیہاتی عورتیں پُل صراط کو ”پُرصلات“ بھی کہتی ہیں، آسیب کو حساب، یا حسین کو ”یاں حسے“، برے کاموں کو افعال، جاسوسی کو چانجوسی، حیرت کو عبرت اور افغانستان کو افوانستان یا اغوانستان کہہ دیتی ہیں۔ اگر ہم چائے پی رہے ہوں جس کے ساتھ بسکٹ سموسے وغیرہ بھی ہوں، تو یہ سب چیزیں مل کر ”چائے وائے“ کہلائیں گی۔ یہی اصطلاح چائے وائے سندھی میں چانھہ بانھہ، پنجابی میں چائے شائے اور پشتو میں چائے مائے ہو جاتی ہے۔

اسی طرح کی مثال گرنے کی آواز کی بھی ہے، جو اردو میں دھڑام، سندھی میں زڑمب، پشتو میں گڑز اور ہندکو میں دھڑل ہو جاتی ہے۔ پیر صاحب پاگارا کے مریدین اکثر ”بھیج پاگارا“ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ سندھی میں اس لفظ ”بھیج“ کا مطلب بھگو دینا، رحمت سے شرابور کر دینا ہوتا ہے، جسے اردو بولنے والے ”بھیجنا“ سمجھتے ہیں۔ یعنی سندھی بھیج پاگارا کہے گا تو اس کا مطلب ہوا پیر صاحب ہمیں اپنی رحمت میں بھگو دے، لیکن اردو بولنے والا سمجھتا ہے کہ پیر صاحب ہمارے لئے کچھ بھیج دے۔ یہی معاملہ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے عقیدت مندوں کا ہے۔

وہ کہتے ہیں ”بھیج بھٹائی ملک مٹھائی“ ، یعنی شاہ صاحب ہمیں رحمت سے بھگو دے اور ہر طرف مٹھاس کر دے، لیکن اردو بولنے والا سمجھے گا کہ پیر صاحب سے مٹھائی بھیجنے کا کہا جا رہا ہے۔ منچھر جھیل اور کینجھر جھیل سندھ کی دو مشہور جھیلیں ہیں۔ لوگ ان کے نام بھی ایک جیسے کر کے انہیں منچھر جھیل اور کینچھر جھیل کہہ دیتے ہیں۔ جب سے کینجھر جھیل کو دریائے سندھ کی کلری کینال سے بھرا جانے لگا ہے تب سے اس کا نام ”کلری جھیل“ پڑ گیا ہے، لیکن اسے بھی کراچی والوں نے ”کرلی جھیل“ کر دیا ہے۔

سندھ میں ایک بہت بڑے سائز کا بیر پیدا ہوتا ہے جو دیکھنے میں سیب جیسا لگتا ہے۔ سیب کو چونکہ سندھی میں ”صُوف“ کہا جاتا ہے اس لئے یہ بیر ”صُوفی بیر“ کہلایا۔ لیکن لوگوں نے اسے صوفی ازم والا صوفی سمجھا، اس لئے جب اس بڑے بیر کی ایک اور قسم متعارف ہوئی تو اسے صوفی بیر سے ملتا جلتا نام ”مولوی بیر“ دے دیا گیا.

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment