ہوم << یہ عشق ہے یا تماشہ؟ . ایڈوکیٹ عمر محمود وٹو

یہ عشق ہے یا تماشہ؟ . ایڈوکیٹ عمر محمود وٹو

شام کے سائے ڈھلتے ہیں، خاندان ٹی وی کے گرد جمع ہوتا ہے، کوئی چاہتا ہے دن بھر کی تھکن اچھے مناظر میں تحلیل ہو، کوئی چاہتا ہے ایک سادہ سا، خاندانی قصہ دیکھے، لیکن ٹی وی اسکرین پر جو چل رہا ہوتا ہے، وہ نہ محبت ہے، نہ رومانس، اور نہ ہی ادب۔

پیمرا آخر کہاں ہے؟
وہ ادارہ جو ہماری سکرینز کی حرمت کا نگہبان ہے، کیا وہ خوابِ غفلت میں ہے؟
کیا اب ہمارے ہاں کوئی سکریننگ پالیسی باقی ہے؟
کیونکہ جو کچھ ڈراموں میں دکھایا جا رہا ہے، وہ "فیملی انٹرٹینمنٹ" کے لبادے میں شرم و حیا کی دھجیاں بکھیر رہا ہے۔مثال کے طور پر ایک ڈرامے جس کا نام من مست ملنگ ہے اور یہ جیو ٹی وی پر چل رہا ہے۔ اس میں ہیرو کا کردار دانش تیمور اور ہیروئن کا کردار سہر ہاشمی کر رہی ہیں۔

اس ڈرامے کا منظر ملاحظہ فرمائیں:
مدھم روشنی میں لپٹے کمرے میں، ایک خوب رو دوشیزہ (ہیروئن) نازک اندام، بندھی ہوئی، بستر پر پڑی ہے۔ اس کی کلائیوں پر بندھے دوپٹے کی گرہیں جذبات اور جبر سے بندھی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ تھکن، بےبسی اور سسکیوں کے درمیان اپنے ہاتھ آزاد کروانے کی لاحاصل کوشش میں ہے۔

دروازہ کھلتا ہے، اور ایک دوسری لڑکی اندر آتی ہے۔ جیسے ہی اس کی نظر اس منظر پر پڑتی ہے، اس کے حواس ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں، جیسے زمین اس کے قدموں سے کھسک گئی ہو۔ وہ لڑکی چیخ اٹھتی ہے ، نہ صرف اس لیے کہ منظر تکلیف دہ ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ "محبت" کے نام پر ایسا کچھ دیکھنے کی ہرگز توقع نہ رکھتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بستر پر بندھی ہوئی ہیروئن بیساختہ بول پڑتی ہے کہ میری مدد کرو،۔ اس سے پہلے وہ کچھ کر پاتی اگلے ہی لمحے، ہیرو نمودار ہوتا ہے۔ وہ غصے میں چیختا ہے، ڈانٹتا ہے، اور سوال کرتا ہے:

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" لڑکی ڈرتے ہوئے کہتی ہے، "میں تو صرف کھانا دینے آئی تھی، مگر یہ سب؟"

ہیرو اس سوال پر آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور لڑکی کی جانب بڑھتے ہوئے دھمکی دیتا ہے کہ اگلی باری تمہاری ہے، یہ دھمکی سن کر وہ لڑکی، جس نے صرف ایک سادہ نیت سے دروازہ کھولا تھا، اپنی عزت بچا کر وہاں سے بھاگتی ہے ، دل میں خوف لیے، زبان پر خاموشی لیے۔

سوال یہ نہیں کہ وہ منظر کیا تھا ؟
سوال یہ ہے کہ اس منظر کا مقصد کیا تھا؟
کیا واقعی یہ رومانس تھا؟
یا اخلاقیات کا جنازے کو، جبر کو، غصے کو، اور ضد کو "محبت" کے نام پر بیچنے کی ایک نئی کوشش؟
بعد میں وہ لڑکی، سراسیمگی کے عالم میں کسی اور کو بتاتی ہے کہ "کبیر (ہیرو) نے ریا (ہیروئن) کو اپنے بستر پر باندھ رکھا ہے، اور اگلی لڑکی شیطانی مسکراہٹ سے سوال کرتی ہے، "باندھا ہوا ہے؟ مطلب؟" گویا اس نے منظر کو سنجیدگی سے نہیں، تفریح اور رومانوی انداز میں لیا، جیسے یہ سب کچھ نارمل ہے۔ پھولوں والی ہتھ کڑی نہ سہی بیلٹ اور ڈوبٹہ ہی سہی۔

ایسے مناظر اب عام ہو چکے ہیں۔ وہ لمحے، جو کبھی آنکھیں جھکا دیتے تھے، اب ریٹنگز بڑھاتے ہیں۔ وہ باتیں، جو کبھی راز تھیں، اب اسکرین پر با آوازِ بلند سنائی دیتی ہیں۔ یہ المیہ ہے — اور بہت سنگین المیہ۔ پیمرا اور متعلقہ حکومتی اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس جانب توجہ دیں۔ سنسر کرنے کے ساتھ ساتھ ادب اور اقدار کو محفوظ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ڈرامے صرف "بیہودگیوں کے نظارے" ہوں گے ،احساس، خلوص، اور خاندانی محبت کی جھلک نہیں۔ یہ صرف ایک ڈرامے کی بات نہیں ،یہ نسلوں کی تربیت کا سوال ہے.