جیسے ہی میدانی علاقوں میں گرمی نے زور پکڑا ' عید کی چھٹیاں اور ساتھ ہی بچوں کی اسکولوں سے چھٹیاں ہوئیں لوگوں نے شمالی علاقہ جات کی طرف رُخ کرنا شروع کر دیا ـ گرم موسم سے ستائے لوگ ٹھنڈے علاقوں کی طرف بھاگے لیکن گلوبل وارمنگ کی وجہ سے وہاں بھی گرمی ہی برداشت کرنا پڑی ـ جیسا کہ آج کل پہاڑی علاقوں میں دن میں سورج اپنی آب و تاب دکھاتا ہے اور اس کےڈھلتے ہی موسم خوشگوار ہو جاتا ہے ـ
اس دفعہ لگتا ہے کہ پورا پاکستان ہی کاغان ' ناران اور ہنزہ کی وادیوں کی طرف نکل پڑا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف یہی سننے اور دیکھنے کو ملا کہ ناران میں گاڑیوں کی قطاریں لگ گئیں ـ جس کی بعد میں وجہ یہ معلوم ہوئی کہ وہاں کا پُل ٹوٹ گیا تھا جس کی بروقت مرمت کا کام نہیں کیا گیا ـ اس کی جگہ متبادل پل بنایا گیا لیکن وہ چھوٹا تھا اور دو طرفہ ٹریفک کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہا تھا ـ پھر گاڑیوں کا اژدھام تھا جس میں ہر ایک کو اپنی منزل پر جلدی پہنچنے کا بھوت سوار تھا 'اسی دھن میں وہ اپنی قطار سے نکل کر آگے آ جاتے ہیں اور یوں دوسری طرف سے آنے والی ٹریفک بھی رک جاتی ہے اور صورتحال مزید گھمبیر ہو جاتی ہے ـ اگر سب تحمل کا مظاہرہ کریں اور اپنی قطار میں آہستہ آہستہ نکلتے رہیں تب بھی اتنا مسئلہ نہ ہو ـ لوگ خود ہی اپنے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں اور پھر خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں ـ
آخر کار انتظامیہ کو پل کی مرمت کا خیال آ گیا اور کچھ دنوں کے لیے اس پل کو آمدورفت کے لیے بند کر دیا گیا تاکہ سیاحوں کو گھنٹوں اس اذیت سے نہ گزرنا پڑے اور صورتحال میں بہتری لائی جا سکے ـ
اس سال شمالی علاقہ جات میں صورتحال زیادہ تشویش ناک نظر آئی جس کی ایک بنیادی وجہ تو وہ 5 سے 6 گھنٹے تھے جس میں لوگوں کو طویل قطار میں کھڑے ہونے کی صعوبت برداشت کرنی پڑی ' پھر صفائی کا مسئلہ تھا ـ گزشتہ چند سالوں کی نسبت اس سال زیادہ کوڑا کرکٹ ہر طرف دیکھنے کو ملا ـ جس کے ذمہ دار مقامی کاروباری لوگ اور خود سیاح ہیں ـ لوگ اتنی بڑی بڑی گاڑیاں تو لے آتے ہیں اور اتنا خرچہ بھی کر لیتے ہیں لیکن ایک شاپر اپنی گاڑی میں ایسا نہیں رکھ پاتے جس میں وہ اپنا کوڑا وغیرہ ڈال سکیں اور پھر راستے میں کہیں کسی کوڑے دان میں پھینک سکیں ـ جن وادیوں ' نظاروں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اتنا بے تاب ہو کر' وقت نکال کر' پھر اتنا طویل سفر طے کر کے آتے ہیں تو کیا ان راستوں اور مقامات کو صاف ستھرا نہیں رکھ سکتے ؟ کیا بحیثیت سیاح یہ ہماری ذمہ داری نہیں بنتی ؟ سوچیں اور فیصلہ کریں ـ
راستے میں جگہ جگہ مقامی لوگوں نے ریستوران ' ہوٹل اور چائے ' کافی کے کھوکھے کھول لیے ہیں جس سے اُن علاقوں کی خوبصورتی تو متاثر ہوئی ہی ہے لیکن ان کے کوڑے سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے ـ کئی جگہوں پر' دودھ کے خالی ڈبے پڑے ہیں ' شاپر اور جوس کے ڈبے دریا اور ندی نالوں میں گرے ہوئے ہیں ـ کیا سیاح جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر دیکھنے کے لیے اُن علاقوں کا رُخ کرتے ہیں ؟ اپنے اردگرد کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی ؟
ہم ہر بات کے لیے حکومت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں تو کیا اپنے بچوں کے استعمال شدہ پیمپرز کو سڑک کے کنارے یا ان مقامات پر پھینکنے کی بھی ذمہ داری سرکار پر ڈالیں گے ؟ ہاں یہ حکومت کی کمزوری ضرور ہے جو ایسے لوگوں کو سزا نہیں دیتی ـ
غیر ملکی سیاح بھی شمالی علاقہ جات کی طرف رخ کرتے ہیں تو ہم بحیثیت پاکستانی خود کو اور اپنے ملک کو ان کے سامنے کیسا پیش کرتے ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے تھوڑا نہیں بلکہ پورا سوچیں ـ
صفائی تو ہمارا نصف ایمان ہے پھر ہم کیسے گندگی پھیلانے والے بن گئے ـ
جتنے حادثات اس سال ابھی سے سننے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں ' پہلے کبھی نہ سنا تھا' نہ مشاہدہ و تجربہ ہوا تھا ـ نہ جانے کون سے لوگ ہیں اور کہاں سے آئے ہیں جن کو نہ اپنی زندگیوں کی پرواہ ہے اور نہ دوسروں کی زندگیوں کا احساس ہے ـ پہاڑوں پر' پُر پیچ راہوں پر ' ڈھلوانوں اور چڑھائی پر ایسے گاڑی چلاتے ہیں جیسے کوئی تیس مار خان ہوں ـ نوجوان لڑکے گاڑیوں کے شیشوں سے آدھے سے زیادہ باہر لٹکے ہوئے ہوتے ہیں ' اوور ٹیک کرتے ہیں ' تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ' اونچی آواز میں گانے لگا کر پھر وڈیو بنا کر نہ جانے خود کو کونسی فلم کا ہیرو تصور کرتے ہیں ـ جب حادثہ ہو جاتا ہے تو ملبہ انتظامیہ اور حکومتی اداروں پر گرتا ہے ـ ہم سب جانتے ہیں کہ گلیشئیرز ' خطرناک ہوتے ہیں پھر لینڈ سلائیڈنگ کسی بھی وقت ہو سکتی ہے پھر بھی لوگوں کا برف کے اوپر چڑھ کر کودنا' کھیلنا ' تصویریں بنانا کہاں کی عقلمندی ہے ـ وی لاگنگ' سیلفی کلچر اور تصویریں بنانے کے شوق نے کئی قیمتی جانیں لے لیں ـ لیکن پھر بھی عقل نہ آئی ـ
اس دفعہ ناران میں آنے والے لوگ نہ جانے کون سے سیارے سے آئے ہیں جن کو کسی قسم کی تمیز نہیں ہے ـ عجیب نظروں سے دوسروں کو دیکھنا' آوازیں کسنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ' نہ کوئی احترام' نہ کوئی شرم نہ ہی کسی دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ' پھر اوچھی حرکتوں کا ٹھیکہ بھی اٹھایا ہوتا ہے ـ نہ جانے کون لوگ ہیں یہ !
نوجوان لڑکے اکٹھے ہو کر جاتے ہیں ان کو پیچھے اپنے والدین یا گھر والوں کا خیال نہیں رہتا یا شاید سر پر کفن باندھ کر ہی اُن پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں ـ فیملی والے ان لوگوں کو دیکھ کر حیران و پریشان ہوتے ہیں کہ ہم تو لطف اندوز ہونے ' اچھا اور معیاری وقت گزارنے آئے تھے 'یہ کہاں پھنس گئے ہم ----
اگر ہم اپنے ملک میں سیرو سیاحت کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں حکومتی سطح پر سخت اقدامات کرنے ہوں گے اور ان پر عمل پیرا بھی ڈنڈے کے زور پر کروانا ہو گا ـ
سب سے پہلے تو متعلقہ اداروں کو چاہئیے کہ سوشل میڈیا پر اپنے تصدیق شدہ اکاؤنٹ بنائیں جہاں ہر طرح کی معلومات مل سکے جو درست بھی ہو ' موسم کا حال' اگر کوئی راستہ بند ہے یا زیرِ تعمیر ہے تو اس کی تفصیلات' یا متبادل راستہ ' خوراک و آرام کی اشیاء کی معلومات' سفر کی تمام تر تفصیلات بتائی جائیں ' احتیاطی تدابیر بتائی جائیں ' ایمرجنسی نمبرز مہیا کیے جائیں ' داخلی راستوں پر بھی چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہئیے کہ کتنی گاڑیاں داخل ہوئی ہیں اور کتنی گنجائیش موجود ہے ' زیادہ گاڑیوں کا داخلہ ہی روک دیا جائے ـ اعلانات کیے جائیں ' ٹی وی اور دیگر پلیٹ فارمز پر بتایا جائے کہ لوگ فی الحال ان علاقوں کا رخ نہ کریں جب تک حالات معمول پر نہیں آ جاتے ـ
صفائی کے لیے مناسب وقفوں سے کوڑا دان نصب کیے جائیں ـ پھر مقامی لوگوں پر سختی کی جائے کہ وہ روزمرہ کا کوڑا پہاڑوں کی چوٹیوں 'دریا یا اردگرد پھیلانے کی بجائے کوڑے دان میں ڈالیں ـ سیاحوں کو بھی جرمانہ عائد کیا جائے تاکہ وہ اپنا کوڑا اپنی گاڑی میں رکھیں جب کہیں کوڑا دان نظر آئے تو اس میں ڈالیں ـ
ٹریفک کے اصولوں پر سختی سے عمل کروایا جائے ـ خطرناک راستوں اور موڑ پر احتیاط کی جائے جگہ جگہ امدادی ٹیم کی موجودگی یقینی بنائی جائے کیونکہ ان علاقوں میں گاڑیوں کا خراب ہونا بھی ایک معمول ہے ـ
ہر وادی یا علاقے میں ہسپتال ہونا چاہئیے جس میں فوراً ابتدائی طبی امداد مل سکے ـ
سفر شروع کرنے سے پہلے یہ لازمی بنایا جائے کہ گاڑی کے ٹائر' بریک' آئل وغیرہ چیک کریں تاکہ پہاڑی علاقوں میں مشکل سے بچا جا سکے ـ
موبائل کے سگنل کا مسئلہ بہت پیچیدہ اور سنگین ہے ـ جو مقامی نمبر لیے جاتے ہیں وہ بھی کام نہیں کرتے جس کی وجہ سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا ـ حکومتی سطح پر وہاں مختلف نیٹ ورکس کی بحالی کا موئژ نظام متعارف ہونا چاہئیے تاکہ رابطہ کرنے میں آسانی ہو ـ
رات کے سفر پر پابندی عائد کی جائے ـ لوگوں کو راستوں کی دشواریوں کے بارے میں اور احتیاط کے بارے میں بتایا جائے ـ جب تک ڈرائیور ماہر نہ ہو اس علاقے میں گاڑی نہ چلائے ـ کیونکہ جب نوجوان اور نہ تجربہ کار لوگ گاڑی چلاتے ہیں تو وہاں کے دشوار راستوں پر ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں اور گاڑی بے قابو ہو جاتی ہے ـ زرا سی لغزش کئی زندگیاں لے جاتی ہے ـ
حکومت سے اپیل ہے کہ جگہ جگہ ہوٹل بنانے کی اجازت دے کر ان علاقوں کی خوبصورتی کو خراب نہ کریں ـ اداروں کو سنجیدہ بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے ورنہ ہمارے شمالی علاقہ جات سیاحوں سے محروم ہو جائیں گے ـ لوگوں کو بھی سوچنا چاہئیے کہ وہ اپنی جمع پونجی مناسب وقت پر' مناسب جگہ پر لگائیں ' سفر شروع کرنے سے پہلے تمام معلومات حاصل کریں ' ایڈوانس بکنگ کروائیں ـ خیال رکھیں کہ ڈرائیونگ کا دورانیہ مناسب رہے ' مختلف مقامات پر ٹھہرتے ہوئے جائیں ایک ہی دن میں ہنزہ پہنچنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ نیند کا پورا ہونا بھی بہت ضروری ہے اور ان علاقوں میں ڈرائیونگ کرنا آسان کام نہیں ہے ـ احتیاط سے کام لیں خوشی کے ماحول کو غم میں تبدیل نہ کریں ـ جذبات سے نہیں بلکہ ہوش و حواس سے کام لیں اور اپنے اس سفر کو آخری سفر میں تبدیل نہ کریں ـ اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں ـ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنی امان میں رکھیں ـ
تبصرہ لکھیے