اس تصویر کا منظر میرے لیے کسی حیرت انگیز انکشاف سے کم نہ تھا۔ دو متضاد فطرت کے حامل عناصر—لوہا اور لکڑی ایسی ہم آہنگی اور رفاقت کے ساتھ جُڑے تھے کہ گویا جدائی ان کے لیے ضرررساں ہو۔ یہ وہی لوہا ہے جس کی نوع سے پیدا ہونے والی آری لمحوں میں درخت کی جڑیں کاٹ کر رکھ دیتی ہے۔ وہی مشین، اسی برادری سے، لکڑی کو چیر پھاڑ کر اسے سیدھا کرتی ہے۔ اور وہی قومِ لوہا کی کیلیں، لکڑی کو چھید کر اس کی تکلیف میں اضافہ کرتی ہیں۔
مگر یہ درخت شاید اپنے نصیب کی لکیر پہ راضی تھا۔ جب اسے جاننا نصیب ہوا کہ اس کی عمر بھر کی رفاقت اسی لوہے کے ساتھ لکھی جا چکی ہے، تو اس نے مزاحمت ترک کر کے خود کو اس کی صورت میں ڈھال لیا۔ حتیٰ کہ دونوں اس درجہ یکجان ہو گئے کہ پہچاننا دشوار ہو گیا کون لوہا ہے اور کون لکڑی۔ اسی طرح ہمارے تعلقات میں بھی کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر تکلیف دہ، اذیت ناک اور ناقدری سے بھرے ہوتے ہیں۔
ان کی فطرت میں زخم دینا، موقع پر وار کرنا اور دل دکھانا شامل ہوتا ہے۔ لیکن ہماری زندگی کی کہانی کچھ یوں لکھی ہوتی ہے کہ ان سے فاصلہ اختیار کرنا ممکن نہیں رہتا۔ کبھی یہ رشتے خونی بندھن ہوتے ہیں، کبھی سماجی یا ازدواجی۔ جدائی اگر ممکن بھی ہو تو ایسے زخم چھوڑ جاتی ہے جو برسوں رسنے لگتے ہیں۔ایسے میں دانشمندی اسی میں ہے کہ ہم ان رشتوں کو ان کی فطرت سمیت قبول کر لیں۔ مزاحمت کی بجائے صبر و تحمل سے ان سے جُڑ جائیں۔
جی ہاں، اُسی طرح جیسے درخت نے لوہے سے مفاہمت کی۔ اور یہی وہ مقام ہے جہاں ہمیں نبی کریم ﷺ کی عظیم نصیحت یاد آتی ہے:
"صِلْ مَنْ قَطَعَكَ " — جو تجھ سے تعلق توڑے، تو اس سے جوڑ قائم رکھ۔
یقین کیجیے، اگر ہم اس عظیم سنت پر صدقِ دل سے عمل کریں، تو دین اور دنیا دونوں کے خزانوں سے مالا مال ہو سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے