ہوم << دیوانِ غالب کی نویں غزل اور غالب کا فن - عبیدالرحمن

دیوانِ غالب کی نویں غزل اور غالب کا فن - عبیدالرحمن

یہ امر ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ غالب کی بطور شاعر عظمت کی بنیاد اس کے باریکیوں اور دقائق کے حامل مشکل اشعار ہیں یا وہ اشعار جو سادہ اور عام فہم مگر لاجواب ہیں . اس سوال کا جواب جو بھی ہو , غالب کی عظمت تو بہ ہر صورت ثابت و مسلم ہے . اس نے دونوں رنگ کے اشعار کہے ہیں اور خوب کہے ہیں . مشکل پسندی اس کے ہاں ایسی کہ دیگر اردو شعراء کے ہاں اس کا عشر عشیر بھی نظر نہیں آتا اور سادہ و بے تکلف انداز کے اشعار بھی اپنی مثال آپ ہیں .

غالب کی یہ غزل دونوں رنگوں کے حامل اشعار پر مشتمل ہے . غزل کا دوسرا شعر مشکل پسندی کی بہترین مثال ہے . تیسرا شعر انتہاء کی سادگی اور معنوی دل کشی لیے ہوئے ہے .دوسرے شعر کا مضمون اگرچہ کوئی ایسا اہم نہیں بلکہ متروک ہے . اس شعر میں امرد پرستی کا ذکر ہے . البتہ غالب کی فنی صنعت گری اس شعر سے بہ خوبی واضح ہوتی ہے. مضمون اس شعر کا صرف اتنا ہے کہ غالب نے یہاں محبوب کی زلفوں کی تعریف کی ہے . البتہ اس کےلیے اس نے کیا انداز بیاں اپنایا , یہ اہم ہے .

وقتِ بلوغت چہرے پر ظاہر ہونے والے سبزی مائل بالوں کو سبزہ خط کہا جاتا ہے . ان کے ظاہر ہو جانے پر چہرے کا حسن ماند پڑ جاتا ہے . غالب کہتا ہے کہ لیکن میرے محبوب کی زلفوں کی رعنائی و دل کشی کو سبزہ خط بھی نہیں دبا سکا . غالب نے یہاں زلفوں کےلیے سرکش کی جو ترکیب استعمال کی ہے , یہ بڑا معنوی حسن رکھتی ہے . کیوں کہ زلفوں کا رخ جس طرف پھیرا جائے مگر وہ سرکشی کرتے ہوئے پھر آ چہرے پر گرتی ہیں .

آگے دوسرے مصرع میں غالب سبزہ خط کو زُمُرّد کے قیمتی پتھر اور زلفوں کو کالے سانپ سے تشبیہ دیتا ہے . زلفوں کو کالے سانپ سے تشبیہ دینے سے ایک تو زلفوں کے خوب سیاہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے اور دوسرا اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ سانپ کی مثل محبوب کی زلفیں بھی بل دار اور خم دار ہیں . بہ ہر حال کہا جاتا ہے کہ زُمُرّد ایک سبزی مائل ایسا قیمتی پتھر ہے کہ اگر اسے سانپ کے سامنے کیا جائے تو سانپ مر جاتا ہے یا اندھا ہو جاتا ہے . غالب کہتا ہے کہ سبزہ خط کا زُمُرّد بھی میرے محبوب کی زلفوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکا . ان کی دلکشی جوں کی توں ہے . اب اندازہ لگائیں ایسی باریکیاں عربی شاعری میں تو ہوں تو ہوں مگر اردو کے کس شاعر کے ہاں پائی جاتی ہیں .

اب تیسرے شعر میں سادگیِ بیان دیکھیں . سب کچھ بلکل واضح اور عام فہم ہے . لیکن انداز ایسا کہ شاید اس سے زیادہ بہتر ممکن نہ ہو . اسی کو سہل ممتنع کہتے ہیں . غالب کہتا ہے کہ میری آرزو تھی کہ مجھے موت آ جائے کہ اس طرح مجھے محبوب کی بے رخی , بے اعتنائی اور جفا سمیت اس کی جانب سے ملنے والے تمام غموں سے نجات مل جائے , لیکن میرا محبوب اتنا ستم گر ہے کہ وہ میرے مرنے پر بھی راضی نہ ہوا کہ کہیں اس طرح مجھے سکون نہ مل جائے . اور جب محبوب راضی نہیں ہے تو میں مر بھی کیسے سکتا ہوں کہ مجھے اس کی مرضی کے خلاف ایک قدم اٹھانا بھی گوارا نہیں . یہی عشق ہے . وفا کا تقاضا بھی یہی ہے . سو اس کے ظلم سہے جاتا ہوں اور جیے جاتا ہوں .

غزل کے پہلے شعر میں بھی ایک عام مضمون کو بڑے خاص انداز سے بیان کیا ہے . وہ کہتا ہے کہ یہ دنیا میں بظاہر وفا کی جو شکلیں اور صورتیں نظر آتی ہیں , یہ میرے لیے تسلی کا باعث نہیں ہیں . درحقیقت وفا کا دنیا میں وجود ہی نہیں ہے اور وفا ایک ایسا لفظ ہے جسے آج تک اپنا معنی ملا ہی نہیں ہے . دیگر اشعار کا مضمون انتہائی آسان ہے یا پہلے مضامین کی تکرار ہے . غالب کہتا ہے کہ میری بھی یہ خواہش تو ہے کی تقوی کے راستے پر چلوں لیکن اگر ایسا نہیں ہو سکا تو میں جیسا ہوں ویسا ہی بھلا ہوں .

کہتا ہے کہ اچھا ہوا کہ تم نے مجھ سے وعدہ نہ کیا , اس طرح مجھے تیرا احسان مند ہونا پڑتا اور وعدہ بھی پورا نہیں ہونا تھا . چھٹے شعر کا مضمون تیسرے شعر والا ہے . آخری شعر میں غالب کہتا ہے کہ دمِ عیسی جو لوگوں کو شفا بخشتا ہے , مجھے اس نے بھی فائدہ نہیں پہنچایا , کہ جوں ہی دم کےلیے ہونٹوں نے حرکت کی تو میری ناتوانی اس ہلکی سی حرکت کی تاب نہ لا سکی اور میں مر گیا . یوں جس چیز نے مجھے شفا بخشنی تھی , وہ ہی میری موت کا سبب بن گئی .

اہم نکتہ :
یہاں غالب نے چوتھے اور آخری شعر میں لفظ تقوی اور عیسی کو بطور قافیہ باندھا ہے . حالاں کہ یہ دو الفاظ دیگر قافیوں کے ہم آواز نہیں ہیں . اس کا جواب یہ ہے کہ قدیم شعراء اپنے کلام میں بصری قافیوں کا استعمال بھی کر لیتے تھے . یہ دو الفاظ بھی بصری قافیے ہی ہیں . بصری قافیوں میں آواز کے برعکس ظاہری شکل و صورت دیکھی جاتی ہے . یہاں بھی تقوی اور عیسی شکلاً و صورتاً دیگر قافیوں کے مانند ہی ہیں . البتہ ایسے قافیے باندھنا غالب جیسے بڑے اساتذہ کا ہی اختصاص ہے .